حبیب الرحمن بٹالوی نے اپنی زیرِ تالیف کتاب’’ماں اور مامتا‘‘کا مسودہ میرے حوالے کیا تو مجھے سب سے پہلے اپنی والدہ یاد آئیں جن کی دعائیں آج بھی مجھے زندگی کی کڑی دھوپ سے بچاتی ہیں۔مجھے وہ لمحہ یاد آیا کہ جب جنوری 1968ء کی ایک دوپہر میری والدہ میرے والد کی میت کے قریب بیٹھی روتی تھیں اور میں ان کے دکھ سے بے نیاز ایک ساڑھے تین سالہ بچہ ان کے قریب کھیلتا تھا۔ میری یادوں میں میری ماں کا یہی اشکوں سے بنا ہوا پہلا نقش کچھ اس طرح محفوظ ہے کہ میں چاہوں بھی تو اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ اور میں بھلا کیوں چاہوں گا کہ میں کبھی یہ نقش فراموش کروں کہ میری ما ں کے یہی آنسو تو تھے جنہوں نے مجھے زندگی کا سلیقہ دیا۔ یہی وہ اشکوں بھرا چہرہ تھا جس نے مجھے پاؤں لہو لہان کیے بغیر کانٹوں بھرے راستے سے گزرنے کا ہنر سکھایا۔ یہ دراصل میرے آنسو تھے جو میری نہیں میری ماں کی آنکھوں سے بہتے تھے ۔ اس نے میری زندگی کو روشن بنانے کیلئے میرے حصے کے اشکوں کو بھی اپنے خوبصورت چہرے پر سجائے رکھا ۔اور صرف اسی دن نہیں میری والدہ بعد کے دنوں میں بھی بارہا روتی رہیں۔ہر ماں کی طرح اُن کی بھی کوشش ہوتی تھی کہ بچے ان کے آنسو نہ دیکھ سکیں ۔ وہ ہم سے چھپ کے روتی تھیں یا جب ہم سو جاتے تو پھر روتی تھیں۔ایسے میں اگر کبھی ہم میں سے کوئی اچانک ان کے سامنے آجاتا یا سوتے سے جاگ اٹھتاتو وہ اپنے آنسو صاف کرکے اس طرح مسکراتے ہوئے ہماری جانب متوجہ ہوتیں کہ جیسے وہ سدا سے مسکرارہی ہوں۔
میں نے جب ہوش سنبھالا تو اپنی ماں کو ہمیشہ مشقت کرتے دیکھا۔ وہ دن میں محلے والوں کے کپڑے سیتیں، شام کو ان کے بچوں کو پڑھاتیں اور رات کو کبھی سویٹر بنتیں اور کبھی کڑھائی کا کام کرتیں۔ انہوں نے باپ بن کر ہم تین بہن بھائیوں کو کچھ اس طرح سے پالا کہ ہمیں کسی محرومی کا احساس ہی نہ ہونے دیا ۔ صدر بازارسے ملحقہ بابو محلہ میں واقع تین منزلہ عمارت کا ایک کمرہ ہماری ماں نے ہمارے لیے جنت بنائے رکھا۔ وہ کمرہ ٹیوشن سنٹر بھی تھا۔ وہاں سلائی مشین بھی چلتی تھی۔ وہیں ایک کونے میں بیٹھ کر ہم کھانا کھاتے اور اسی کمرے میں چادر بچھا کر چائے کی پتی کی پُڑیاں بھرتے تھے اور پھروہ سلائی مشین سے ان پڑیوں کو سی دیتی تھیں تاکہ دکاندارانہیں ہاروں کی طرح اپنی دکان میں لٹکاسکیں اور گاہکوں کو ایک ایک آنے میں فروخت کرسکیں۔ چائے کی پتی کی یہ پڑیاں ساشے کی ابتدائی شکل تھی ۔ ہمارے محلے میں پتی کا ایک ڈیلر رہتا تھا جس کا شاید کوئی نام بھی ہوگامگر اسے اور اس کے تمام گھروالوں کو محلے میں ’’پتی والے ‘‘ کے نام سے ہی پکارا جاتا تھا یہ پتی والے چائے کی پتی کی پیٹیاں (یعنی کارٹن) ہمارے گھر چھوڑ جاتے اور اس ’’ساشے سازی ‘‘کے نتیجے میں ہمیں معمولی رقم ادا کرتے جو اس زمانے میں ہمارے لیے بہت غیر معمولی ہوتی تھی۔ غرض یہ کہ میں نے اپنے بچپن سے لڑکپن تک اپنی ماں کو مسلسل محنت کرتے دیکھا۔ ماتھے پر کوئی بل لائے اور کسی کو تھکاوٹ کا احساس دلائے بغیر ۔
زندگی کے کڑے لمحات کو ہنس کر، محنت اور خود داری کے ساتھ کیسے گزاراجاتاہے یہ میں نے اپنی ماں سے ہی سیکھا۔کسی کا لحاظ کیے بغیر دو ٹوک بات کیسے کی جاتی ہے؟بھری محفل میں سچ کہنے کا حوصلہ کیسے پیدا کیا جاتاہے؟ تھوڑی روٹی کو ’’بُہتی‘‘کیسے سمجھا جاتاہے؟ روکھی سُوکھی کھاکر کس طرح گزارا کیاجاتاہے ؟ اور اپنے دکھوں کو لوگوں سے کس طرح چھپایا جاتاہے یہ سب میں نے اپنی ماں سے ہی سیکھا۔ اور میں ہی نہیں ہر شخص زندگی گزارنے کے بنیادی اصول اپنی ماں سے ہی سیکھتاہے۔ دیگر حالات و واقعات اور بیرونی عوامل بھی یقیناً اس کی کردار سازی اور شخصیت سازی کرتے ہونگے لیکن ان کا اثر ماں کی تربیت سے زیادہ نہیں ہوتا۔
دیکھئے حبیب الرحمن بٹالوی کی کتاب کیسے ہمیں ماضی کے جھروکوں میں لے گئی اور کس طرح یادوں کا ایک کبھی ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہ حبیب الرحمن بٹالوی سے زیادہ اس مقدس رشتے کا کمال ہے جسے انہوں نے اپنی کتاب کا موضوع بنایا ہے۔ ماں بلاشبہ دنیا کی سب سے خوبصورت ہستی ہے اور اس لیے سب سے زیادہ خوبصورت ہستی ہے کہ وہ آپ کو سب سے زیادہ پیاردیتی ہے۔ ایک ایسے دور میں جب رشتے کمزور ہورہے ہیں ، قدریں ٹوٹ رہی ہیں اور بہت سے لفظ اپنی معنویت کھوچکے ہیں، ماں واحد رشتہ ہے جو پوری شان وشوکت اور عظمت کے ساتھ برقرار ہے ۔ یہ واحد لفظ ہے جس کی معنویت تبدیل ہوئی نہ کبھی ہوگی۔ مامتا واحد جذبہ ہے جس کے سامنے محبت جیسا مضبوط جذبہ بھی ہیچ دکھائی دیتاہے۔
حبیب الرحمن بٹالوی نے بہت اچھاکیا کہ ’’ماں اور مامتا‘‘جیسے خوبصورت موضوع پر تحریر کیے جانے والے اہم مضامین ،خوبصورت نظموں،اقوال اور یادگار خطوط کو یکجا کردیا۔ ان میں سے بہت سے تحریریں ایسی ہیں جو اردو ادب میں لازوال اہمیت کی حامل ہیں اور بعض مصنفین تو اپنی انہی تحریروں کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ ہر قلم کار نے ماں اور مامتاکے حوالے سے اپنے جذبات کو منفرد انداز میں قلم بند کیا ہے۔ موضوع ایک ہے، جذبہ ایک ہے، رشتہ ایک، لیکن تجربات مختلف ہیں۔ ان میں سے بیشتر تحریریں روشنائی کی بجائے آنسوؤں سے تحریر کی گئی ہیں۔ یہ ماؤں کی یادوں سے جگمگاتی وہ کہکشاں ہے جس کی روشنی ہمارے ذہنوں کو منور کردیتی ہے ۔
اس کتاب میں شامل مضامین کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان میں کہیں کوئی تصنع ہے نہ بناوٹ ۔ کہیں کوئی لفاظی دکھائی نہیں دیتی۔ بس لفظ ہیں جو قطار اندر قطار دل سے سیدھے کاغذ پر منتقل ہوتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ مضامین قلم برداشتہ تحریر کیے گئے۔ یہ ان لوگوں کی تحریریں ہیں جو ’’مدرز ڈے‘‘ کے نام پر ماں کیلئے مصنوعی محبت کا اہتمام نہیں کرتے ۔ان میں سے بیشتر تحریریں اس زمانے کی ہیں جب ماؤں کو ان کی اولاد ’’اولڈ ہومز ‘‘میں نہیں چھوڑ تی تھی یہ اس زمانے کی باتیں ہیں جب ماں سے محبت کا اظہار کسی ایک دن تک محدود نہیں کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تحریریں ادب کے اُفق پر ہمیشہ جگمگاتی رہیں گی اور ان کے ساتھ ہی یہ کتاب بھی۔

Post a Comment