پارہ دوز

(تین پارچے :ایک کہانی) ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

پہلا پارچہ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ اُس روز تو میری آنکھیں باہر کو اُبل رہی تھیں۔ بے خوابی کا عارضہ میرے لیے نیا نہ تھا تاہم پہلے میں مُسکّن ادویات سے اس پر قابو پا لیا کرتا تھا، یوں نہیں ہوتا تھا کہ ادل بدل کر دوائیں لینے سے بھی افاقہ نہ ہو۔مگر اس بار ایسا نہ ہوا تھا۔ دونوں کنپٹیوں کے نواح سے درد برآمد ہو کر پورے بدن پر شب خُون مارتا تھا اور میرے عصبی ریشے بری طرح ٹوٹنے لگتے تھے۔جب سارے ٹسٹ ہو چکے اور کہیں بھی کوئی خرابی نہ نکلی تو مجھے تشویش کے دورے پڑنے لگے میں اس ٹوٹ پھوٹ سے نڈھال تھا مگر یہ درد کیوں تھا، اس کی تشخیص ہی نہ ہو پا رہی تھی۔ اور یہی بات مجھے دہلائے دیتی تھی۔ بے پناہ تشویش کے ایسے ہی دورانیے میں میرا دھیان آنکھوں کی دُکھن کی جانب ہو گیا۔ بل کہ مجھے یوں کہنا چاہیے کہ جب سارا درد آنکھوں میں برچھی کی طرح کھُب گیا تو دھیان کے وہاں ارتکاز کے علاوہ میرے پاس کوئی اور صورت تھی ہی نہیں۔ بدن کا درد تو کسی کو نظر نہ آیا تھا مگر میری ان آنکھوں کو تو دیکھا جا سکتا تھا جو انگاروں کی طرح دہک رہیں تھیں۔ نافی کا خیال تھا :اس میں تشویش کا کوئی پہلو نہیں تھا۔ یہ بات اس نے میری آنکھوں میں دیکھے بغیر ہی کہہ دی تھی۔ وہ آئینے کے سامنے کھڑی مصنوعی پلکیں چپکا رہی تھی۔ مجھے اس کے روّیے پر طیش آ رہا تھا تاہم میں نہیں جانتا تھا کہ میں اس پر اپنے غصے کا اظہار کیسے کروں۔ ہم دونوں کے درمیان رشتہ کچھ ایسی نہج پر پہنچ چکا تھا کہ ہم ایک دوسرے پر غصہ کرنا لگ بھگ ہی بھول گئے تھے۔ میں نے ہمت جمع کی اور اس کے سامنے جا کھڑا ہوا، کچھ یوں کہ اس کی نظر آئینے کی بہ جائے میری سرخ بیرا بنی، ابلتی ہوئی آنکھوں پر پڑ جائے۔ نافی نے کندھے سکیڑ کر پہلو بدلتے ہوے اپنی داہنی کہنی کو قدرے باہر کو نکلی ہوئی میری توند کے بائیں جانب ٹکا دیا، یوں کہ آئینہ دیکھتی اس کی نیلی آنکھیں میری گردن کے ایک طرف سے بغیر کسی رکاوٹ کے دیکھتی رہیں۔ میں نے بائیں کو مزید کھسک کر درمیان میں حائل ہونا چاہا تو وہ میرے ارادے کو بھانپ گئی اور ’’اوں ہونہہ‘‘ کہتے ہوے میرے پیٹ پر ٹکی کہنی پر دائیں جانب دباؤ بڑھا دیا۔ میں مجبوراً ایک طرف کھسک گیا تاہم ہمت نہ ہاری اور لگ بھگ گھگھیا کر کہا ’’نافی دیکھو نا ڈارلنگ میری آنکھیں درد سے پھٹ رہیں ہیں۔‘‘ مجھے اپنی آواز اجنبی لگی تھی، اتنی کہ میں اَدبَدا کر آئینے میں خود کو دیکھنے لگا تھا۔ ایک ثانیے کے لیے، جی محض ایک ثانئے کے لیے۔ مجھے یوں لگا تھا جیسے میری آنکھیں سرخ نہیں تھیں، مگر دوسرے ہی لمحے سارے آئینے میں سرخ لوتھڑا بنی آنکھیں اُگ آئی تھیں۔ میں نے ادھر سے دھیان ہٹا کر ساری توجہ نافی پر مرتکز کر دی کہ شاید یوں وہ آئینے کے واسطے سے میری آنکھوں پر نظر ڈال لے۔ میں ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا مگر وہ اپنے آپ میں بری طرح مگن تھی کچھ اس محویت سے کہ اس سلسلے کو روک کر میری طرف دیکھنے کی گنجائش نکلتی ہی نہ تھی۔ تاہم ہمارے حسی نظام کی تربیت اس نہج پر ہو چکی تھی کہ ہم ایک دوسرے کو دیکھے بغیر سہولت سے ضروری فیصلے کر سکتے تھے۔۔۔ اور اس نے فیصلہ کیا تھا کہ مجھے وہاں کھڑا رہنے کی بہ جائے اپنے لیے کوئی اور مصروفیت ڈھونڈنی چاہیے : ’’اوہ موظی ڈیئر، میں نے دیکھ لی ہیں نا تمہاری آنکھیں‘‘۔ وہ جھوٹ بول رہی تھی یا ممکن ہے اس نے میرا چہرہ دیکھے بغیر ہی میری آنکھیں دیکھ لی تھیں تاہم میں دیکھ رہا تھا ایک لمحے کے لیے بھی اس کی نگاہ اس کے اپنے چہرے سے جدا نہیں ہوئی تھی۔ مجھے اس کے جملے پر ایک بار پھر غور کرنا پڑا، اور جب میں اسے خوب جانچ چکا تو اس کا مطلب بھی سمجھ آ گیا تھا۔ وہ ہمیشہ سے نچلے ہونٹ کو قدرے ڈھلا چھوڑ کر مجھے معظم کی بہ جائے موظی کہتی چلی آ رہی تھی، حتی کہ ایسے کہنا اس کی عادت ہو گئی۔ تاہم ایک زمانہ تھا کہ موظی کہتے ہوے اس کا نچلا ہونٹ رسیلا ہو جایا کرتا تھا۔ جب پہلی بار اس نے مجھے موظی کہا تھا تو میں بہت ہنسا تھا۔ میں نے سیلاب جیسی ہنسی تھمتے ہی اس کے رسیلے ہونٹوں کے صدقے اس کا موظی کہنا قبول کر لیا تھا۔ اور جب اس نے پوچھا تھا کہ میں اسے نفیسہ کی بہ جائے محبت سے کیا کہا کروں گا تو مجھے کچھ نہ سوجھا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کے نام کو بدلنے کی مجھے طلب ہی نہ ہو رہی تھی۔ میں اسے نفیسہ کہتا تھا تو اس کا پورا وجود انتہائی نفاست ہے میرے سامنے ایستادہ ہو جاتا تھا لہذا میں نے کہہ دیا کہ محبت مجھے نفیسہ کہنے سے باز نہیں رکھے گی۔ مگر اس نے ضد کر کے اپنے لیے نافی سے پکارا جانا تجویز کر لیا تھا۔ نافی جہاں تھی وہاں اب میرا ٹکنا مشکل ہو رہا تھا مگر یوں تھا کہ میں اس کی توجہ کے لیے مرے جاتا تھا۔ اس طرح کا مرنا تو میں ایک مُدّت سے بھول چکا تھا۔۔۔ مگر آہ میری سرخ بوٹی کی سی آنکھیں۔۔۔ میں وہاں سے کیسے ٹل سکتا تھا کہ ابھی تک اس نے ان میں جھانکا ہی نہیں تھا۔ جب وہ آئنے کے اوپر جھک کر نفاست سے بنی اپنی بھنووں کو دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے باری باری سہلا کر جائزہ لے رہی تھی تو میری دُکھتی ہوئی آنکھیں آئینے ہی سے اس کے چکنے شانے سے پھسلتی ڈیپ وی میں گر گئی تھیں۔ روئی کے گالے جیسی نرمی ان کے لیے مرہم ہو گئی تھی۔ میں اپنی آنکھیں ہمیشہ کے لیے وہاں، اُس گداز میں بھول سکتا تھا مگر عین اسی لمحے نرم اور ملائم جلد کٹتی چلی گئی، تیز نشتر کی نوک سے، بالکل ایک سیدھ میں۔ اور جب وہ پوری طرح کٹ گئی تو لہو شراٹے بھر کر بہنے لگا، اتنا کہ میری آنکھیں اس لہو میں ڈوب گئی تھیں ۔ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ دوسرا پارچہ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ میرے لیے وہ پہلا آپریشن نہیں تھا۔ اس عورت کی باری آنے سے پہلے اس جیسے لگ بھگ سات سو بائیس مریضوں کو چھ سال میں آپریٹ کر چکا تھا۔ ایک ایک پیشنٹ کا ریکارڈ میرے پاس تھا۔ اگر میں اس عرصے میں کام یاب نہ ہونے والے آپریشنز کی شرح نکالنا چا ہوں تو وہ محض ایک اشاریہ ایک صفر آٹھ فی صد بنتی ہے۔ اس عرصے میں آپریشن کے تختے پر یا پوسٹ آپریشن ٹریٹمنٹ کے دوران مرنے والوں میں سے پانچ کی عمر اٹھاون سے اوپر تھی دو لڑکے نو اور گیارہ برس کے تھے جبکہ ایک عورت عین اس عمر میں آپریٹ ہوئی تھی جس میں اب نافی تھی۔ جس کے لہو سے میری آنکھیں بھیگی تھیں وہ مرنے والی یہ عورت نہیں تھی۔ نہ یہ نہ باقی مرنے والی عورتیں۔وہ عورت تو زندگی کے ایسے دورانئے میں آپریشن تھیٹر میں لائی گئی تھی جو طویل
محمد حمید شاہد
تر ہو گیا تھا، اتنا کہ کاٹتے رہنے سے بھی کٹنے میں نہ آتا تھا۔ سات سو بائیس مریضوں کے آپریشن کے چھ برس کتنی جلدی بیت گئے تھے۔ میرا اپنا دل اُس سارے عرصے میں عین پسلیوں کے بیچ نشتر چلاتے ہوے ایک بار بھی نہیں کانپا تھا۔ جنہیں زندگی ملنا تھی، انہیں میرے نشتر کی دھار سے ملی اور جن کی سانسوں کا کوٹہ ختم ہو گیا تھا انہیں میرا خلوص اور انتھک محنت بھی زندگی نہ دلا سکا تھا۔ تاہم جب میری مہارت اور قابلیت کی شہرت دور دور تک پھیل گئی تو ڈاکٹر میر باز سے ملاقات ہو گئی۔ ڈاکٹر میر باز سے میں پہلے بھی مل چکا تھا غالباً پہلی بار ان دنوں جب وہ وفاقی علاقے میں اپنا ہسپتال بنانے کا منصوبہ بنا رہا تھا ان دنوں وہ اس سرکاری ہسپتال کے سربراہ سے ملنے آیا تھا جس میں، میں پریکٹس کرتا تھا۔ اسے بہت سے امور میں میرے باس کی مدد چاہیے تھی، یہ مدد اسے ملتی رہی ایک شاندار ہسپتال اس کے دیکھتے ہی دیکھتے بن گیا۔ جتنے سرکاری ادارے اس کے پینل پر آ سکتے تھے وہ لائے گئے اور اس میں بھی میرے باس کی مدد شامل تھی۔تاہم میں اسے دیکھتا تھا تو مجھے ابکائی آنے لگتی اور جب اس کے ہسپتال کے پاس سے گزرنے کا موقع نکلتا تو مرعوبیت مجھ پر چڑھ دوڑتی تھی۔ شاید یہی وہ اسباب تھے کہ میں اس کے قریب نہ ہو پا رہا تھا لہذا اپنے کام میں مگن ہو گیا حتی کہ وہ دن آ گیا کہ جس کی شام کو ہمیں کرائے کا مکان بدلنا تھا اور نفیسہ نے، جو ابھی نافی نہیں بنی تھی، ہاتھ ملتے ہوے کہا تھا کہ ہم کب تک کرائے کے مکان بدلتے رہے گے۔ یہ بات نفیسہ نے عین اس وقت کہی تھی جب اس نے سامان گھسیٹتے ہوے میری پشت سے اپنی پشت کو ٹکرا لیا تھا۔ اس ٹکرانے میں کچھ ایسا لطف تھا کہ وہ یونہی سی ایک بات سمجھ کر اپنے اس جملے کو بھول گئی تھی جس کی تلخی میرے اندر اتر گئی تھی۔ جب وہ مزے سے اور اپنے آپ سے بے پروا ہو کر ہنس رہی تھی تو اس کی آواز کے ہلکوروں میں ایک میٹھا سا بھید چھلکنے لگا تھا۔ اس بھید میں اس کا بدن ڈوب اُبھر رہا تھا۔ میں نے اُسے نظر بھر کر دیکھا تھا اور ساری تلخی بھول کران ہلکوروں میں خود بھی بہہ گیا تھا ۔ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ آخری پارچہـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــاسے سننا، اس کی آواز کے ہلکوروں میں بہہ جانا یا پھر اُس کے بدن کو یوں دیکھنا کہ لطف اور لذت ساری دُکھن سمیٹ لے ایک مُدّت کے بعد ہوا تھا۔ اتنی مُدّت کے بعد کہ اب یہ اندازہ کرنے کے لیے، کہ آخری بار ایسا کب ہوا تھا، مجھے ذہن پر بہت زور دینا پڑے گا۔ ذہن پر غیر معمولی زود دیئے بغیر یہ بات میں یقین سے کہہ سکتا تھا کہ یہ واقعہ سرکاری ہسپتال سے الگ ہونے اور ڈاکٹر میر باز کے نئے ہسپتال میں میرے پہلے آپریشن سے بھی پہلے کا تھا۔ جی، اس پہلے آپریشن کا جس نے ابھی ابھی میری آنکھیں خُون میں نہلا دی تھی۔ بعد کے برسوں کی تعداد اور یادیں میں نے قصداً سینت سینت کر نہیں رکھی تھیں کہ انہیں سوچوں تو مجھے خود پر ویسی ہی اُبکائی آنے لگتی جیسی کبھی ڈاکٹر میر باز خان کو دیکھ کر آتی تھی۔ تاہم اس وقت میرا مسئلہ ابکائی نہیں آنکھیں تھیں جو درد سے پھٹی جا رہی تھیں۔ ’’ دیکھو موظی ڈیئر بہتر یہ ہے کہ کچھ دیر کے لیے سو جاؤ، خود ہی آرام آ جائے گا‘‘ اس نے اس بار بھی میری آنکھوں میں دیکھے بغیر یہ کہا تھا۔ جملے کی ساخت میں بہ ظاہر محبت اور تشویش تھی مگر آواز جس مخرج سے برامد ہوئی تھی اس نے اسے سپاٹ اور سارے ممکنہ جذبوں سے عاری بنا دیا تھا۔ اس طرح بولنا اور اسی طرح کی آوازوں کو سننا اور ان کے مطابق اپنے آپ کو حرکت دینا اب ہماری زندگی کا معمول تھا۔ لہذا میرے لیے وہاں کھڑے رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔ میں گذشتہ طویل عرصے سے مختلف دوائیں پھانک رہا تھا اور کچھ ہی دیر پہلے اپنی ابلتی آنکھوں میں قطرے بھی ڈال لیے تھے۔مگر وہ درد جس نے میری آنکھوں کو گروی رکھا ہوا تھا۔ ٹلتا ہی نہ تھا۔اور نافی کا کہنا تھا کہ مجھے آرام کرنا چاہیے۔ بیڈ پر بیٹھتے ہی میں نے زور سے خود کو پیچھے گرا دیا۔ خود کو یوں گرانے سے میں ایسی آواز پیدا کرنا چاہتا تھا جو نافی کو متوجہ کر لے مگر فومی گدے کی نرماہٹ پر میرا بدن جھول کر رہ گیا۔ اپنی اس کوشش کے بعد اس کو دیکھا۔ وہ پہلے کی طرح آئینے میں مگن تھی تاہم میں نے محسوس کیا تھا کہ جب تک میں وہاں کھڑا رہا، وہ بھی کھڑی رہی تھی، یوں جیسے آئینہ اس کے وجود سے کھڑا تھا۔ مگر اب وہ بیٹھ چکی تھی اور آئینہ اسے جھُک جھُک کر جھانک رہا تھا۔ دودھ جیسی گوری گردن تک سلیقے سے ترشے ہوے بالوں کو چھونے کے لیے جب نافی دونوں کہنیاں باہر کو اُٹھا کر ہاتھ پیچھے کو لے آئی تو ایک بار پھر میں اپنی اُبلتی آنکھوں کو بھول گیا۔ اس نے ہتھیلیوں کا رخ اپنے گالوں کی طرف کیا دونوں ہاتھوں کی چھوٹی انگلیوں کو اوپر اٹھایا اور پھر انہیں لچکا کر بالوں کے نیچے گردن پر رگڑتے ہوے باہم ملا لیا۔ اس کے سارے بال ان ننھّی مُنّی انگلیوں کے اوپر جمع ہوے گئے تھے۔ پھر اس نے یکدم ہاتھوں کو کچھ یوں جنبش دی کہ بالوں کے نیچے سے نکل آنے والی انگلیوں سمیت دونوں ہاتھوں کی آخری تین تین انگلیاں تتلی کے پروں کی طرح ہوا میں لہرا گئیں، کچھ اس ادا سے کہ باقی کی انگلیاں پہلے سے سمٹے سمٹائے بالوں کو دھیرے دھیرے اپنی پوروں سے بوسے دینے لگی تھیں۔ عین اس لمحے میں نے محسوس کیا تھا کہ وہ پہلے کے مقابلے میں بلکی ہو گئی تھی۔ قمیض کی سَلوٹیں اُس کے بدن کے گداز میں دھنس رہی تھیں۔ گلا آگے پیچھے دونوں طرف سے ڈیپ تھا جو اندر کی ساری نرمی باہر پھینک رہا تھا۔ بازو اوپر اٹھانے سے اس کے کولہے دائیں بائیں اور پیچھے کو کچھ اور پھول گئے تھے۔ اتنے کہ میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی تھی کہ میں اٹھ کر انہیں پیار سے تھپتھپا دوں۔ میں نے اٹھنا چاہا بھی مگر آنکھوں کی شدید چبھن نے مجھے اٹھنے ہی نہ دیا اور وہ خواہش قضا ہو گئی۔اتنی شدید اور اتنی خالص خواہش کے اس قدر مختصر دورانئے پر مجھے بہت دکھ ہوا۔ تاہم عین اسی لمحے پر حیران بھی تھا۔ اور حیرت اس بات پر تھی کہ یہ خواہش میرے اندر ابھی تک موجود تھی۔اب میں اسے دیکھتے رہنا چاہتا تھا مگر اسے یوں دیکھنا میرے لیے ممکن نہ رہا تھا کہ میرا سر گھومنے لگا۔اور میں قبر جیسے اندھیرے میں ڈوبتا چلا گیا۔ شان دار روشن قبر کے گہرے اندھیرے میں۔ جو نہی میں قبر کے پیندے سے جا لگا ٹیلی فون کی گھنٹی چیخنے لگی۔ میں گن نہیں پایا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی کتنی بار بجی تھی تاہم آخری بار ابھی اس کی گونج پوری طرح معدوم نہیں ہوئی تھی کہ نافی کے ہیلو کہنے کی آواز سنائی دی۔ دوسری طرف جو بھی تھا اسے نافی نے یہ نہ بتایا تھا کہ میں اس کے کہنے پر آرام کر رہا تھا۔ اُس نے اگلے آدھے گھنٹے کے اندر میرے پہنچنے کا خود ہی تخمینہ بھی لگا لیا تھا۔ بات مکمل کرتے ہی اس نے مجھے جھنجھوڑ ہی ڈالا تھا اتنی زور سے کہ اتنا جھنجھوڑنے پر مُردے بھی زندہ ہو سکتے تھے۔ وہ آپریشن ڈے تھا اور مجھے اُوپر تلے تین آپریشن کرنا تھے۔ جب میں تیار ہو کر اپنے خوب صورت گھر کے پورچ سے اپنی نئی گاڑی نکال رہا تھا تو نہیں جانتا تھا کہ ایک مرا ہوا شخص زندگی کے بخیے کیسے لگا پائے گا۔ ٍ

Post a Comment