آغا نجف کی اچانک موت نے مہرالنساخانم کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔یعنی جودس ہزار کا مشاہرہ حویلی سے آتا تھا، اب اس کی بھی کوئی صورت نہ تھی ۔ادھر لاکھ سمجھانے پربھی شرف النسا کسی اورکی رکھیل بننے سے انکاری تھی اور خود وہ اس عمر میں دھندہ کرنے سے رہی جب کہ ثمینہ کی عمر ابھی اس قابل نہیں تھی کہ اس کی نتھ کھلوائی جاتی ۔ پھر اس نے پچھلے دس سال سے کسی اورسے واسطہ بھی تو نہ رکھا کہ کوئی اس کی پرسش کوآتا۔ کہنے کوتو پینتیس سال سے اسی ہیرا منڈی میں اس کا کوٹھا تھا مگر ایرے غیرے کو منہ لگانا توایک طرف کسی دلال سے بھی تعلق نہ کیا۔یہاںتک کہ مجلس،ماتم داری اور منت ووظائف کی تمام رسوم بجائے محلے کے امام باڑے کے مرکزی امام بارگاہ میں جاکر اداکرتی۔دراصل مہروخانم کی نظر میں وہ تصویریں پھرتی تھیں جب وہ اپنی ماںکے ساتھ فیض آبادسے یہاں آئی تھی اورشاہی محلے میں ان کا کوٹھا گویا ایک دربارتھاجہاںایک سے بڑھ کر ایک، بیسیوں رنڈیاں ان کے ہاںپناہ لیے ہوئے تھیں۔ ہروقت رقص و آوازکا سامان اورآٹھ پہررونقیں تھیں۔ اگرچہ فیض آباد کی طرح یہاں نواب نہ تھے مگر مہروکی ماں خورشید آرا اب بھی اپنے ہاںکم نسب اور ذلیل کو پھٹکنے نہ دیتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اس کے ہاں آنے والا نواب نہیں تو نہ سہی کم سے کم شرفا میں تو ہو،مگر خورشید آرا کے مرنے کے بعد تو ایسی منحوس ہوا چلی کہ محلہ صرف لچّو ںلفنگوں کا اڈا بن کے رہ گیا ۔ حکومت نے ایسے قانون بنائے کہ شرفا نے آنا بند کردیا۔ البتہ آغا نجف،کہ پرانے ملنے والوں میں تھا جو ایک طرح سے مہروخانم کا داماد بھی تھا،اس نے آخری دم تک ساتھ نبھایا۔ وہ خود تو نہ آتا تھامگر دس ہزار ماہانہ بھیجتا رہا۔ اب جب کہ آغا نجف کا سہارا بھی نہ رہا تو اس کی نشانی خادم حسین کی کفالت کی فکردامن گیرہوئی۔کوئی چھ مہینے تو اسی حالت میں گذرے لیکن کب تک ؟ جب جمع شدہ سرمایہ آخری سانسیں لینے لگاتو مہر النسا خانم نے کوٹھے کے باہر پان سگریٹ کا کھوکھا لگا لیا اورکتھا چونا بیچنے لگی ۔ چنددنوں میں کھوکھا چل نکلا اوردن میں دوچار سوآنے لگے یوںیہ فکر تو کسی حدتک کم ہوئی مگر وہ خادم حسین کے حال سے تشویش میںگُھلنے لگی جو ابھی تین ہی سال کا تھا۔اسے ثمینہ کی توایسی فکر نہ تھی کہ وقت آنے پر جیسے وہ نقش نین بنا رہی تھی، سو آدمی اس کے لیے تیارہوجاتے لیکن وہ سمجھتی تھی کہ خادم حسین نواب کالڑکا ہے، اسے محلے میںنہیں رہنا چاہیے۔ اسی شش وپنج میں ایک سال اور نکل گیا۔ ایک دن اس نے خادم حسین کو شرف النسا کی گود میں کھیلتے دیکھا تو اس کا جی بھر آیا ۔ وہ یہ سوچ کر کُڑھنے لگی کہ ایسا چاند کا ٹکڑا محلے کے شہدوںاور لفنگوںمیں کیو ں کر زندگی کاٹے گا۔بالآخر اس نے شرف النسا سے کہا "جس قدر جلدہوسکے لڑکے کو رنڈیوں کی صحبت سے دور کر دو ۔آج چھوکرے کی عمر ہی کیا ہے۔ ہوش لینے سے پہلے محلے سے ہٹاؤگی تو پلٹ کر نہ آئے گا۔ "
"لیکن کہاں بھیجوں؟ یہاںتو دوردور تک کسی شریف زادے سے تعلق نہیں ۔ البتہ آغا نجف زندہ ہوتے تو ضرور لے جاتے کہ خون کا کچھ توخیال ہوتا ہے"،شرف النسا نے فکر مندی سے جواب دیا۔
"مگریہاں محلے میں ضرور خراب ہوگا۔"مہروخانم نے دوبارہ زوردیتے ہوئے کہا ،" ایک سے ایک بدمعاش رنڈی بیٹھی ہے۔ مسیں بھیگنے سے پہلے ہی لونڈے کو چاٹ لیں گی۔ دیکھ تو کیسے ہاتھ پاؤں نکال رہا ہے اور پھر میں تو کسی طرح نہ چاہوں گی کہ لڑکا محلے کے رذیلوں میں اٹھے بیٹھے۔"
"مگر کہاں بھیجوں؟ کوئی ٹھکانہ بھی تو ہو۔"شرف النسا اکتائے ہوئے لہجے میں بولی۔
"میں نے ایک جگہ سوچی ہے۔" مہرالنسا نزدیک ہوکرکہنے لگی،" سید صادق تقی ہے نا ،مرکزی حسینیہ امام بارگاہ کا متولّی، لڑکے کو اس کی کفالت میں دے دیتے ہیں۔ خرچہ چپکے سے بھیجتے رہیں گے ۔ وہیں سے مکتب میں جائے اور وہیں رہے۔ کانوں کان کسی کوخبر نہ ہوگی۔خود ہم بھی کم ہی واسطہ رکھیںگی۔ سیّد زادوں اور شریفوں میں رہے گا تو دنیا کی عزت اور دین کی دولت دونوںپائے گا۔"
"مگر اماں!"شرف النسا بولنے لگی پھرگویا دل ہی دل میں اپنی ماںکی عقل کوداد دیتے ہوئے چپ کرگئی۔ پھراچانک تردّدسے بولی،" مگراماںسیّد صادق کیوں کر ایک رنڈی کے بیٹے کو لے گا ؟اس کے تو جنموں میں بھی رنڈیوں سے واسطہ نہیں ۔ ایسا فرشتہ سیرت اور شب بیدار کیسے ہمارے پاپ کا ذمہ اٹھائے گا ؟ پھر خادم ابھی چارہی سال کاتو ہے۔وہ تو اس کی ناک پونچھنے سے رہا۔"
"تو فکر نہ کر"، مہرالنسا فیصلہ کن لہجے میں بولی "سیّد تقی سے بات میں کروںگی۔ ہماری تو جو قسمت میں لکھا تھا بھوگ لیا، پرمیں لڑکے کو ذلیل نہ ہونے دوںگی اور پھر اِسی عمر میں یہ یہاں سے نکلے تو اچھا ہے۔"

گذشتہ سال اس کڑاکے کی سردی پڑی کہ ہرشے سکڑ کے رہ گئی۔ مہروخانم جو رات گئے تک کھوکھے پر بیٹھتی تھی اسی سردی سے نمونیے میں گرفتار ہوگئی۔ لاکھ دوادارو کیے مگر افاقہ نہ ہوا ۔ اگرچہ وہ ساٹھ سے اوپر نہ تھی مگر عمر کے اس حصے میں تھی جہاںدواؤںکے ساتھ دعاؤں کی بھی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ قبول نہ ہوئیں اورمہروخانم دس دن کے اندر ہی قضاہوگئی۔اِس اچانک موت نے شرف النسا کو ہلا کے رکھ دیامگراس نے چند ہی دنوںمیں اپنے آپ کو بحال کیا اور کھوکھے کے کام کو سنبھال کرگھر چلانے کا بندوبست کرلیا۔ وہ خود تو کھوکھے پر بیٹھنے لگی جب کہ گھر کی دیکھ بھال ثمینہ کے حوالے کردی۔ کئی مہینے اِسی طرح معاملہ چلتا رہا اس کے ساتھ ساتھ ثمینہ کی دلچسپیاں بھی بڑھتی گئیں۔ حتٰی کہ مہروخانم کو مرے ابھی سال نہ ہواتھاکہ اس نے پر نکالنے شروع کردیے ۔ شرف النساکے لاکھ سمجھانے پر بھی تانک جھانک سے نہ رکی بلکہ کچھ دنوںسے تو سر عام رنڈیوں کی صحبت پکڑلی۔ شرف النسا نے یہ حالت دیکھی تو فکر میں پڑی۔فوراََ کبیر دلال سے رابطہ کرکے سردار جہانگیر احمد کے ساتھ تین لاکھ کے عوض گانٹھ دی۔ سردار جہانگیر احمد ثمینہ کو اپنی زمینوںپر پتّوکی لے گیا جہاں اس کے بے شمار باغات تھے۔ اول تین ماہ تک تو ثمینہ کو اپنا کوٹھا یاد آتا رہا لیکن اب آہستہ آہستہ جہانگیر کی ناز برداریوںسے وہ اس جگہ کی عادی ہو گئی پھر اسے کچھ اور امید بھی بندھ گئی تھی کہ شایدجہانگیر اس سے شادی کرلے اور یہ ہوبھی جاتا کہ قسمت نے ایک اور پلٹا کھایا ۔انھی دنوںجہانگیر احمد کی ماںکو کسی طرح خبر ہوگئی کہ لاڈلے میاں نے گھر سے بالا بالا رنڈی رکھی ہوئی ہے۔ وہ انھی قدموں پتّو کی پہنچی اور ثمینہ کو میڈھیوں سے پکڑ کردروازے سے باہر کردیا۔جہانگیرنے اُف تک نہ کی۔ حالاں کہ ثمینہ کے پیٹ میں اس کا چارماہ کا بچہ ہوچکا تھا جسے اس نے شادی کی امیدپر جننے کا سوچا تھا۔دروازے سے باہر نکلتے ہوئے ثمینہ باربار جہانگیر احمد کا منہ دیکھتی رہی کہ شاید ماں کو کھری کھری سنا دے مگر جہانگیر تو بھیگی بلی بنا کھڑا تھا اپنی ماں کے آگے جیسے کل کا بچہ ہو۔ ثمینہ نے یہ حالت دیکھی تو دونوں کو کوسنے دینے لگی۔اس نے ایسے مردکہاں دیکھے تھے۔ بالآخرتین حرف بھیج کر کوٹھے پر آگئی۔ ایک دومہینے تو اسے یہ امید رہی کہ شاید جہانگیررابطہ کرے لیکن جب ادھر سے کسی نے خبر نہ لی تو اِس نے دھندا کرنے کی ٹھان لی۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ پیٹ کا بچہ اب چھ مہینے کا ہوچکا تھا، لہٰذا مایوس ہوکر کھوکھے کے کام میں شرف النسا کا ہاتھ بٹانے لگی اور دن گذرتے گئے۔
لڑکا پیداہوا تو ثمینہ نے اپنے کام کا آغاز کردیا اگرچہ رکھیل بنانے کو سینکڑوں تیارتھے لیکن اب وہ مستقل کسی کی ہوکے رہنے کو راضی نہ تھی ۔ لہٰذا، آلات رباب سے گرد جھاڑ کر ایک سلیقے سے دھندہ شروع کردیا۔ پھرتو چند ہی ماہ میں دوردور بات نکل گئی اور محلے میں ایک قسم کی جان آگئی۔

ایسی عزاداری تو لوگوںنے اپنی ہوش میں دیکھی نہ تھی۔ خادم نے انتظامات کچھ ایسے ڈھب سے کیے کہ ہر آدمی واہ وا کر کے رہ گیا۔ عزاداروںکے لیے شامیانوں اور سبیلوں کا انتظام، ماتمیوں اور زنجیر زنوں کے لیے فرسٹ ایڈ سے لے کر مکمل میڈیکل سنٹر کا قیام اور چاک چوبند حفاظتی دستے کی عمل داری، ہرکام میں ایک سلیقہ تھا۔ اس کے علاوہ پہلی دفعہ پولیس انتظامیہ سے مل کر مرکزی امام باڑے سے لے کر گول چوک تک کا تمام رستہ دوطرفہ زنجیروں سے باندھ دیا گیا تاکہ جلوس اور ماتمیوں کوکوئی بیرونی رکاوٹ پیش نہ آئے اور وہ خطرے سے دور رہیں۔ اگرچہ آمدنی سابقہ سے زیادہ نہ تھی مگر حسن انتظام ایسا تھا کہ کسی کو شکایت کی گنجائش نہ ہوئی ۔ انھیں پیسوں میں ملک کے نامور ذاکرین، سوز خواں اور نوحہ خواں بلوائے گئے۔ عوام الناس کے لیے دودھ کی سبیلوںکا اہتمام الگ تھا۔ خیر یہ سب تو ایک طرف، اس دفعہ لوگوں نے بھی وہ جوش و خروش دکھایاگویا پورا شہر اثنا عشری ہوگیاہو۔ عزاداروں کا ایسا جم غفیر پہلے کبھی دیکھنے میںنہ آیا تھا۔ دسویں کو زنجیر زنی اور کوئلوں پہ ماتم تو ایساہوا کہ کسی نے خواب میں بھی نہ دیکھا ہوگا۔جس شخص نے پہلے کبھی بغلوں سے ہاتھ نہ نکالے تھے، اب وہ بھی سینہ کوبی کرتے نظر آئے۔ ہرایک کا خیال تھا یہ سب اسی وجہ سے ہوا کہ انتظام اب کے خادم کے ہاتھ میں تھا۔ یوں تو ہر شخص سیّد صادق کی وفات کے بعد خادم سے مشورے کے بغیر امام باڑے یا عزاداری کے متعلق کوئی کام نہ کرتا تھا مگر یہ اہمیت اعجاز رضوی کی شہادت پر اور بڑھ گئی ۔ جب خادم نے اپنی جان پر کھیل کرقاتلوں کا پیچھاکیا اورایک کو مارگرایا۔ اس عمل میں اس کی اپنی ٹانگ بھی زخمی ہوگئی جس کی وجہ سے مہینہ بھر ہسپتال میں رہا۔ اوراس دوران کوئی فرد ایسا نہیں تھاجو خادم کے لیے فکرمند نہ ہوا ہو۔سادات وغیرسادات سب نے اس کی صحت یابی کے لیے دعا کی اورتیمارداری میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ صحت مند ہوکر آیا تو ہرایک کو بے پناہ خوشی ہوئی اور اس صلے میں کوثر شاہ نے عزاداری کے انتظامات اسے سونپ دیے جس کا نتیجہ توقع سے زیادہ اچھا نکلا۔ ذاکر جیسے ہی مصائب کی طرف پلٹتا سب سے پہلے اسی کا بین اٹھتا اور اس قدر روتا کہ امام باڑے کے درودیوار لرزلرز اٹھتے ۔ ہرنماز کے وقت رائفل لے کر دروازے پر بیٹھ جاتا اور جب تک ایک بھی فردنمازمیں ہوتا ، محافظت نہ چھوڑتا۔ امام باڑے سے ملحقہ کمرہ اس کے جینے مرنے کا سامان تھا۔ چونکہ ہوش اِسی کمرے میں سنبھالے تھے، لہٰذا ایک قسم کا وہ اس کا اپنا گھر تھا اورکبھی یہ گمان بھی نہ رہا کہ یہ جگہ امام باڑے کی ہے۔ کمیٹی نے خادم حسین کا ماہانہ آٹھ ہزارمشاہرہ مقررکردیا جو اس سے پہلے سیّد صادق تقی کو ملتا تھا۔ خادم حسین کو اگرچہ کئی سبب سے یہ معلوم تھا کہ اس کا سلسلہ ہیرامنڈی سے ہے مگر اس نے کبھی شرف النسا کے ساتھ اس طرح کی بات نہ کی تھی اور نہ ہی شرف النسا نے اس موضوع کو کبھی چھیڑا۔ ماںبیٹے کے درمیان گویا ایک خاموش سمجھوتا تھا۔ البتہ ہرماہ اپنی ماں کو ان آٹھ میں سے چارہزار باقاعدگی سے دیتا تھا۔ خادم اپنی خالہ کی عزت بھی ویسے ہی کرتا جیسے شرف النسا خانم کی کرتا۔اسے شاید ان کے دھندوںسے کوئی غرض نہ تھی بلکہ ہرطرف سے بے نیازایک ہی دُھن تھی کہ امامِ مظلوم کی عزاداری اب کے کیسے زورشور سے کی جائے۔ وہ ہمیشہ انھی ذرائع پر غور کرتا جو عزاداری سے متعلق ہوتے۔خاص کر ذوالجناح کو سجانے اور زیور سے آراستہ کرنے میں توایساجگرکوخون کرتاکہ عزاداروںکوبھی رشک آنے لگا تھا۔اس نے اپنی تنخواہ کا ایک حصہ ذوالجناح کے زیورات کے لیے مخصوص کیا ہوا تھا۔ اگرچہ عشرے کے روز ذوالجناح کی باگ پکڑ کر چلنے کی اسے بہت حسرت تھی لیکن یہ کسی سیّدکا کام ہوتا تھاپھربھی ہر حالت میں ذوالجناح کے ساتھ ساتھ چلتا ۔ الغرض خادم کے بارے میں یہ طے تھا کہ اسے سوائے عزاداری کے کسی سے کچھ غرض نہیں تھی۔

Post a Comment