ادبی نظریات اور بغیر نظرئیے کا ادب اس سلسلے میں خوب خوب باتیں ہوئی ہیں اور جب تک اس نسل کے لوگ موجود رہیں گے یا
اس کے بعد کی نسل اپنے پیش رو نسل سے اکتسابِ فیض کرتی رہے گی یہ سلسلہ چلتا رہے گا ۔ ہوسکتا ہے کبھی کسی نظریے کو فوقیت مل جائے تو کبھی کوئی نظریہ دوبارہ بحث کا موضوع بن جائے لیکن جہاں تک ادب اور اور اُس کے جملہ اصناف کا تعلق ہے وہ ایک رواں دریا کی طرح ہے جو پانی گذر گیا سو گذر گیا ساحل پر جو خس و خاشاک جمع ہوگئے سو ہوگئے ۔ اس آب رواں نے اپنے ساحل کو توڑ کرجن کھیتیوں کو سیراب کردیا سو کردیا ۔ اس سے جو فصل لہلائی سو لہلہا چکی اب کسان کی نظر اپنی کھیتیوں کی زرخیزی کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر اپنی نئی تخلیقیت کی سمت ہوجاتی ہے کہ اس کا کام ہی اس تسلسل کو قائم رکھنا ہے اس کے ساتھ ہی زندگی کی کلفتوں کو کم کرنے کی طرف اُسے ہمیشہ ہی افتادہ پا رہنا ہے ۔ جس طرح ایک طبقہ اس تحقیق میں غلطاں رہتا ہے کہ کس طرح نئی بیج تیار کرکے بازار کے ذریعہ کاشتکاروں تک پہنچا یا جائے ٹھیک اُسی طرح ایک طبقہ سر جھکائے فراہم کردہ بیج کو اپنی کھیتی کے لئے استعمال کرتا ہے اُسے بس اس بات کی فکر رہتی ہے کہ اُس کی کھیتی خشک نہ ہو اور بازار میں اُس کی شرکت محسوس کی جاتی رہے ان حالات میں جب نئی نسل سامنے آتی تو اس خود سپردگی کے سامنے ہتھیا ر ڈالنے کے بجائے کچھ الگ راہ نکالنے کی کوشش کرتی ہے ایسے میں بعض اصولوں کے طریقۂ استعمال یا پھر منجملہ وہ اصول ہی کالعدم قرار پاتے ہیں
ادب میں نظریات کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر نئی فکر ادب کے ذریعہ ہی متعارف ہوتی ہے اس لئے کہ ادب کا کام انسانی خوابوں کو پیش کرنا بھی ہے اور جب یہ خواب تکمیل کیحدوں میں پہنچ جاتے ہیں تو پھر ایسا ادب صرف حوالیکی چیز بن کر رہ جاتا ہے لیکن کچھ باتیں آفاقی نوعیت کی ہوتی ہیں وہ ہر عہد میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتی ہیں اس طرح ادبی تخلیقات کا جو آمیزہ تیار ہوتا ہے اُس میں موجود رہنے والی چیزیں بھی رہتی ہیں ، مٹتی ہوئی چیزیں بھی فنکار کی فکر کو انگیخت کرتی ہیں اور نئی صورتیں جنہیں ابھی جلوہ گر ہونا ہے ان کی باز گزشت بھی ادب کے ایوان میں سنی جاتی ہے ۔ بعینِہ نظریات بھی بنتے اور معدوم ہوتے رہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اُن کے استعمال میں بھی فرق آتا رہتا ہے ۔ اس کے ابتدائی دنوں میں جو شدت رہتی ہے رفتہ رفتہ اُس میں کمی آجاتی ہے یا طویل عرصے تک ایک ہی جادہ پر چلتے چلتے یکسانیت کا شکار ہوجانا عین فطری ہے ۔اس یکسانیت سے نکلنا اور نئی راہ اپنانا ہر نئے تخلیقی ذہن کا خاصہ ہے لیکن یہ باتیں صرف نئے پن کی تلاش میں ہی ظہور پذیر نہیں ہوتیں بلکہ محض نیا پن کی تلاش میں تغیر و تبدل کو محکم بنانا کوئی پائدار عمل نہیں ہے کسان جب کھیت کٹنے کے بعد مٹی کی تہوں کو اُلٹتا ہے تو اُس کا یہی مقصد ہوتا ہے کہ زمین نرم ہوجائے ۔ خار و خس اور غیر ضروری اجناس باہر نکال دئیے جائیں تاکہ جو نئی کھیتی ہو اُسے پوری غذا فراہم ہوسکے۔
اردو میں ترقی پسندیت اور جدیدیت کی تحریک اور اُن سے جڑے مباحث نے نصف صدی سے بھی زائد عرصہ مکمل کرلیا ہے اب ایک دوسرے کی نشست لینے میں وہ تیزی اور شدت بھی باقی نہیں رہی ہے ادبی منظرنامے پر بھی اس نوعیت کی بحث کو دور ازکار سمجھا جانے لگا ہے تاہم طلبا اور اپنی ادبی روایت سے واقف کرانے کے لئے پروفیسر حضرات کتابیں پر کتابیں شائع کرکے اپنی تصنیفات کی فہرست لمبی کرنے اور اپنا قد بڑھانے میں کچھ زیادہ ہی کوشاں ہیں۔ دوسری طرف نظریاتی ادب کے دعویداروں کے خیمے میں سناٹا چھایا ہوا ہے زیادہ تر ترقی پسند ادیب اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں زیادہ تر جدید فنکار کلاسک میں نیا پن تلاش کررہے ہیں۔ ان سب کاوشوں کے باوجود عصری ادب اپنی ایک الگ راہ پر گامزن ہے کچھ اصناف مردہ ہوچکی ہیں کچھ مردہ اصناف میں جان ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے کچھ اصناف اپنی ثقافتی قوت اور سرپرستی کی وجہ سے زندہ ہیں اور نئی توانائی حاصل کررہی ہیں تو کچھ زندہ رہنے کے اسباب حاصل کرنے میں ناکام ہورہی ہیں۔ ادبی موضوعات اور سماجی موضوعات میں کوئی حد فاصل نہیں ہے۔ تاہم گذشتہ پچاس برسوں میں مختلف خطے ، مختلف نسل و قوم کے زمانی و مکانی اثرات سے پیدا ہونے والے مسائل کا عکس ادب کے منظرنامے کا حصہ بنتا رہا ہے مثال کے طور پر افریقی قوم کا بلیک لٹریچر، ایشیا میں ہجرت کا ادب، ہندوستان میں فرقہ پرستی کی آگ میں جھلسے لوگوں کا سہما سمٹا اور کبھی کبھی اپنی اجداد کے کارناموں پر فخر و مباح کے نتیجے میں پیدا ہونے والا معذور ادب، مختلف قوموں کی شناخت کی تلاش کا ادب، بھوکی پیڑھی کا ادب، بستی کا ادب، وغیرہ وغیرہ ۔بہ ایں ہمہ اب ادب جو دائیں اور بائیں دو حصوں میں تقسیم ہوکر ملکوں کی سرحدوں سے بالاتر تھا اب ان سرحدوں کے بیچ بھی سرحدیں بن رہی ہیں اور مخصوص نظریات کی بجائے مخصوص مسائل اور ان مسائل کے سلسلے میں الگ الگ روئیے پیدا ہورہے ہیں ۔دنیا میں سیاسی اور سماجی حالات ہیں ان کی اثر انگیزی ہر چند کسی بھی زمانے میں دنیا کے ہر خطے میں یکساں نہیں رہی ہے تاہم محروم انسانوں کے درد و کلفت اور ان پر ہونے والے استحصال پر دنیا کے بڑے حصے سے احتجاج کی لے سنائی دیتی تھی لیکن اب حالات دیگر بن رہے ہیں مظلوم کو ظالم بنانے کے تما م ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے جو جہاں طاقتور ہے اور وسائل پر دسترس رکھتا ہے اُسی قدر ان وسائل کا اپنے مقاصد کے لئے غلط اور یک طرفہ استعمال کررہا ہے مظلوم ، محروم ظالم و جابر کے معنی بدلتے جارہے ہیں ۔ مثال کے طور پر ایک خطے کا دہشت گرد دوسرے خطے میں مجاہد بن جاتا ہے ایک کی تاریخ میں جو دہشت پسند گردانا جاتا ہے دوسرے کی تاریخ میں مجاہد آزادی بن جاتا ہے۔ لہذا ان مسائل پر الگ الگ ٹریمنٹ ایک آفاقی منظر نامہ کی تشکیل میں مانع ہیں ۔ ادب اس صورت حال سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے چنانچہ اس آتشِ ستم گیر کی آنچ جب تخلیق کار کو جلاتی ہے تو اُسے احتجاج کرنے کے طریقے تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ہر چند ادبی موضوعات اس طرح کے ہنگامی حالات کا پروردہ نہیں ہوتے اور ان کی ترتیب و تشکیل میں دیگر عوامل بھی کار فرما ہوتے ہیں کہ محض مسائل کا طومار کھڑا کرنا ادب کے نزدیک کبھی پسندیدہ فعل نہیں رہا ہے لیکن کسی بھی معاشرہ میں انسانی تحت الشعور میں دبیبے چینی اور کرب و آلام جس طرح ایک عام آدمی کو متاثر کرتے ہیں ٹھیک اسی طرح ایک تخلیق کاربھی متاثر ہوتا ہے لیکن یہ اثر پذیری سرحدوں سے بالا تر ہوتی ہے بعض اوقات ایک ہی واقعے کا اثر جس میں مساوی طور پر انسانی جانیں تلف ہوتی ہیں، الگ الگ سرحدوں میں الگ الگ طریقے سے محسوس کیا جاتا ہے خاص طور پر اُن جگہوں میں جہاں ہم ان واقعات کو کسی عینک لگا کر دیکھتے ہیں،کسی نظرئے یا ازم کا اسیر ہوکر دیکھتے ہیں کسی قوم یا مذہب کا فرد ہوکر دیکھتے ہیں جب کہ ادب کا مسلک صرف اور صرف انسان اور انسانی قدروں کے تحفظ سے عبارت ہے جس کے نتیجے میں تخلیق کار خود کوایک عالمی گاؤں کا فرد تصور کرتے ہوئے انسانوں کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے تاہم موجودہ صورت حال میں وہ اِس درد میں تمیز کرنے پر مجبور ہے وہ کس لاش پر آنسو بہائے اور کس لاش پر کھڑے ہوکر قہقہہ بار ہو۔ اُس کی آنکھوں کے اختیار میں نہیں ہے زمان اور مکان کے فرق سے اُسے آنسوؤں کا استعمال سیکھنے کے لئے مجبور کیا جارہا ہے ۔ اس نوع کی بے چارگی کا وقت عالمِ انسانیت پر کبھی نہیں آیا تھا
دنیا میں ایک بڑی تبدیلی یہ ہوتی رہی ہے کہ ہم وحشت کے کاندھے سے اُتر کر تہذیب کی گود میں سانس لیں انسانی کے تہذیبی ارتقائی سفر میں جو منازل طے ہوتی گئیں اُن سے آگے کی راہ متعین ہو ہم قبیلوں کے مابین جنگ سے بادشاہوں کی جنگ پھر سرحد بننے کے بعد ملکوں کی مابین جنگ، مذہبی اور نسلی اکائیوں کے مابین جنگ، سے گذر کر انسانیت اقتدار کی منتقلی میں جنگ و جدال کے بجائے جمہوری نظام کی طرف پر امید نظروں سے دیکھنے لگی ہیں ان پشتوں میں ہزار سوراخ ہونے کے باوجود یہی انسانیت کی اہم ترین راہ ہے کہ دنیا افہام و تفہیم ایک دوسرے کو سمجھنے، ایک دوسرے کے احساسات کا احترام کرنیکی قدروں کے ساتھ ہی زندہ رہ سکتی ہے لہذا جب جب ان قدروں پر حملہ ہوتا ہے تو انسان کا بلا تفریقِ مذہب ، رنگ اور نسل احتجاج کرنا عین عبادت ہے اور تخلیقی فنکار کو اس سجدہ گزاری میں یدِ طولیٰ حاصل ہے تاہم ایسا ہونے کے امکانات کو موجودہ منظر نامہ موہوم کررہا ہے
تو کیا یہ سمجھنا چاہیئے کہ ادب اور ادیبوں کی طاقت کمزور ہورہی ہے اور اُس کی روشنائی کا رنگ بدل رہا ہے یا جو ادب ہم لکھ رہے ہیں اُس میں بہت کچھ روایتی اور رسمی ہے اور ہمارا ذہن کچھ رٹے رٹائے کی گردان کررہا ہے اور جب کچھ بھی اس کے برعکس سامنے آتا ہے تو تنقید کی تیوریوں پر بل آجاتے ہیں اور بعض اوقات وہ اس نوع کی تحاریر کو ادب تسلیم کرنے سے بھی عاجز نظر آتا ہے جسے یقیناًدعویٰ بے بنیاد بھی نہیں کہا جاسکتا
لہذا اب جو ادب پیدا ہورہاہے ایک کے لئے فرحت بخش اور دوسرے کے لئے تکلیف دہ بن جاتا ہے اگر قاری باشعور نہ ہو اور جذبات کے ترنگوں کو تخلیق کا جزو اعظم سمجھتا ہو تو ایسے قارئین بہ آسانی سرحدوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں اس منقسم صورت حال میں ایک ہی نظم ایک انسان کو رُلا سکتی ہے تو اُسی وقت دوسرے انسان کو قہقہہ بار کرسکتی ہے۔ ایک ہی کہانی فنکار کو ایک خطے میں مصلوب کرسکتی ہے تو دوسرے خطے میں اس پر تعریفوں کے ڈونگرے برساسکتی ہے۔( جیسا سعادت حسن منٹو کے ساتھ ہو بھی چکا ہے)لہذا ہماری اونچائی کا سفر کرنے والی تنقید کے پاس محفوظ یہ نسخہ کہ اگر ہم حیات و کائنات کی وسعتوں اور سماجی بندھنوں کو جوڑنے والے ادب سے ہم یہ توقع کررہے ہیں کہ وہ مصنوعی اور لخت لخت دنیا کا غلام بن جائے تو اعلیٰ اور آفاقی ادب کے پیدا ہونے کا امکان معدوم ہوجائے گا ۔ یہاں اس سچائی سے بھی مفر نہیں کہ ان بیزار کن حالات سے نکلنا اور ادب کے نام پر جو زرد تحریریں منظر عام پر آرہی ہیں جنکا کوئی تجارتی مقصد ہو تو ادبی اقدار کو قائم رکھنا اور اُسے فروغ دینا ادب کا کام اور تخلیق کا منصب ہر گز نہیں ہے ادب کا تو کام ہی یہی ہے کہ وہ حیاتِ انسانی کے ہر مشکل موڑ پر اپنا دستِ شفقت سایہ فگن کردے اس میں کوئی سرحد کبھی مانع نہیں آتی رہ گئی بات آفاقی ادب کے امکانات کی تو کون جانتا ہے۔ آج جسے ہم ایک سر میں آفاقی تسلیم کررہے ہیں کل اُسی جزیرے کی بازیافت کو پھر کسی سیاح کو نکلنا پڑے اور زندگی کا کوئی چھوٹا تجربہ کسی دور افتادہ جزیرے کی کوئی ادبی تخلیق عام لوگوں کی زبان پر ہو ایسا تو ہوتا ہی آیا ہے۔ لہذا نئے ادبی منظر نامے میں نظریات کی بالادستی کی بجائے زندگی کے مسائل اپنی اپنی ترجیحات کے آئینے میں جس طرح ادبی تخلیق کیقالب میں ہمارے سامنے آرہے اُن
میں ہی آفاقی قدروں کی تلاش کے بغیر کوئی چارۂ کار بھی تو نہیں
کلیم حاذق

Post a Comment