گلی گلی پھرتے تو مقدر بن جاتی رسوائی بھی
رات کی بےداری کاثمر ہےاپنی سخن آرائی بھی

اندر بو ٹی مشک مچا یا، بلھے، باھو خوب نچا یا
ہم نے خود آراستہ کرلی محفل میں تنہائی بھی

میری طرح جو قلب و چشم کو لوگ کشادہ کرلیتے
فکر میں شامل ہوجاتی گیرائی بھی، گہرائی بھی

بات وہ سچی ہوتی ہے جو بر سر ۔ بزم کہی جائے
سچوں ہی کو عطا ہوتی ہے دانائی، بینائی بھی

دشت۔سماعت، فکر ۔سخن سے ہم نے گل و گلزارکیا
ہاشمی اپنے کام آئی برسوں کی آبلہ پائی بھی


سیدانورجاویدہاشمی

1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں