ناف کے نُون میں جو خاک کا در پڑتا ہے
کیا سمندر میں کوئی ویسا بھنور پڑتا ہے
آئینے بولنے لگتے ہیں زباں کوئل کی
عکس اُس شوخ کے پیکر کا اگر ُپڑتا ہے
میں بھی بیباک سا ہوجاتا ہوں لب ریزی میں
مجھ پہ شاید،تری صحبت کا اثر پڑتا ہے
چلتے جاتے ہیں ہہم ،لمس بھری گلیوں میں
شب کے صحرا میں محبت کا سفر پڑتا ہے
کیا بتائوں گا کسی کو میں کہاں رہتا ہوں
تیری بانہوں کی گلی میں میرا گھر پڑتا ہے
ٹوٹ جاتی ہے جہاں کبرو انا کی زنجیر
اُس افق پار ، تصوف کا نگر پڑتا ہے

مل کے جب کرتے ہیں ہم، وصل کی سازش مسعود
اس کا الزام کہاں عشق کے سر پڑتا ہے
۔۔۔
مسعود منور

Post a Comment