گھرتو کیا اس نے خودکو ہی بھلا دیا تھا۔ سڑکو ں کی فٹ پاتھوں پر رات سے دن کرنا اور بیزاری کا نمونہ بنے بے وجہ گلیاں چھانتے پھر نا اس کا معمول تھا۔ ۔ ۔ جاڑے کی سرد راتوں میں کسی دکان کے چھجے تلے ، کانپتے ، ہانپتے بے طرح کے سود و زیاں کے شمار میں یوں مصروف رہتا، گویا اب ا س کی تدبیریں کارگرثابت ہوں گی۔ ۔ ۔ اور وہ زندگی کے دھارے میں پھر سے شامل ہو جائے گا۔
تکیہ اصحاب باباکے وسیع دالان میں صدیوں کی سزا کاٹتے بوڑھے پیپل کے کشادہ تنے سے پشت ٹکائے گھنٹہ بھر سے بیٹھے زمین کے سینے پرکڑھائی کر تے کر تے اس کی انگلیاں اچانک رک گئیں ۔ ۔ ۔ لگاجیسے لمحوں کی سسکیاں سنتے سنتے وہ خود بھی رو دیا ہو۔ خود رو جھاڑیوں کی طرح بڑھی ہوئی اس کی ڈاڑھی اور مونچھوں کے بیچوں بیچ نسبتاًسیاہی مائل ہونٹ لرز نے لگے ۔ ۔ ۔ اور پل جھپکے کی ساعت میں اکھیوں کی برسات نے خودروجھاڑیوں کو سیراب کر دیا۔ ایک ہچکی سی بندھ گئی ۔ ۔ ۔ یوں جیسے بادل گرج رہے ہوں ۔
بابا اصحاب کی گزوں کو محیط قبرکے سرہانے بنے ہوئے طاقچوں میں روشن دیے دھمال ڈالنے لگے ، پیپل کے پتوں نے ہوا سے تال ملاتے ہوئے ماحول کی نغمگی میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔ تب کسی طرح سے فیقے کی نظراس پرآن تھمی۔ وہ یک بارگی اس کی طرف لپکا ۔ بے دھیانی پاؤں کی زنجیر ہوئی اور وہ ایک جھٹکے سے اوندھے منہ زمین پرآ رہا۔ ۔ ۔ رانا ہوٹل سے لائے گئے آلوؤں کے سالن نے اصحاب باباکے دالان کے حسن کو چار چاند لگا دیے ۔ مٹی کی ساختہ کشکو ل نماپلیٹ، دردسینے میں اُتار کر تین ٹکڑوں میں بٹ گئی، صوفی کی تندوری روٹیوں پرخارش زدہ کتیابے دھڑک جھپٹ پڑی تھی۔ ادھرفیقے کی کر اہیں بھی موجی سائیں کے ہچکیوں میں مدغم ہو گئیں ۔
موجی سائیں لگ بھگ تین برس پہلے اس شہر میں وارد ہوا ۔ ۔ ۔ اور اصحاب باباکا تکیہ نشیں بنا۔ جس قدراصحاب باباکے مزارکا صحن وسیع ہے اس سے کہیں زیادہ باباکا دل کشادہ ہے ۔ جوکوئی بھی مہمان ہوا۔ ۔ ۔ آخر کو میزبانی سے شرف یاب رہا، گویامالک ٹھہر گیا۔ اصحاب باباکے حوالے سے دوطرح کی باتیں مشہور ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اشاعت دین کے سلسلہ میں کوئی صحابی رسولؐ یہاں آ رُکے تھے یہ انہیں کا مزار ہے ۔ ۔ ۔ جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ بابا موصوف کا نام صحاب یا اصحاب تھا۔ اصل حال سے کوئی واقف نہیں ۔
٭٭٭
مجیب اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے انتہائی حساس واقع ہوا تھا۔ اسے بچپن ہی سے دینی ودنیاوی علوم حاصل کر نے کا شوق رہا تھا ۔ صبح کا آغازنمازفجر سے کر تا، نماز کی ادائیگی کے بعدمسجد میں ہی تلاوت کلام پاک کر تا اور باقاعدگی کے ساتھ مولوی صاحب سے تفیسرپڑھتا۔ کالج بھی تسلسل سے جاتا اور کوئی ایک ’’پیریڈ‘‘ بھی ’’مس‘‘ نہ کر تا۔ اِدھرتفسیر قرآن مکمل کی تو اُدھرMscبھی شان دارنمبروں سے پاس کر لی۔ اس کے والدین اسے دیکھ دیکھ کر جیتے ۔ ۔ ۔ گویا ان کے سانسوں کی ڈوری مجیب کے ہاتھ ہو۔
حسب معمول شہتوت کا گھنادرخت اپنی بانہیں پھیلائے اس کا منتظرتھا۔ اس کی میٹھی، مسحور کر دینے وا لی چھاؤں ہمیشہ اس کے اعصاب جکڑ لیتی ۔ یہیں ۔ ۔ ۔ اسی لذت آمیز سایے میں بیٹھ کر وہ علینہ کی راہ تکا کر تا۔ ۔ ۔ اور جب وہ کھیتوں کی پگ ڈنڈیوں پرایک ادا سے سنبھل کر چلا کر تی تو مجیب اس سارے منظر کو اپنی آنکھوں میں قید کر لیتا۔ اور پھر اس خوش کن جادوئی کیفیت کا اسیر ہو جاتا۔
مگر۔ ۔ ۔ آج شہتوت کی میٹھی چھاؤں بھی اس کے اضطراب میں کمی نہ کر سکی تھی۔ کوئی پل تھا ، جو اسے چین لینے دیتا؟لمحے صدیوں کو محیط، وہ بے کل اور بے قرار۔ ۔ ۔ علینہ دُور سے آتی دکھائی دی تو وہ رات بھرکے سوچے ہوئے محبت آمیزلفظوں کو دُہرانے لگا۔ جوں جوں وہ قریب آتی گئی ، مجیب کی حالت سنبھالے نہ سنبھلتی۔ پورے وجود پرگویاکپکپی طاری ہو گئی ۔ شب بھرکے سوچے ہوئے تمام لفظ گونگے ہو گئے ۔ کسی اَن دیکھی طاقت نے اسے خوف زدہ کر دیا تھا ۔ اتنا کہ کھڑا رہنا اس کے لیے مشکل ہو گیا۔ اس قدرکم زورتو وہ کبھی نہیں تھا ۔ ساری قوتیں جمع کر کے اس نے علینہ کو روک ہی لیا۔
’’علینہ۔ ۔ ۔ اپناقُرب دے دو، ورنہ میں مر جاؤں گا‘‘
لرزتی زبان اور کپکپاتے ہونٹوں سے سرکنے والے الفاظ فضا میں تحلیل ہو گئے ۔ زمین میں گڑی ہوئی نظریں علینہ کے سامنے کہاں اُٹھ پائی تھیں ۔ ۔ ۔ اس وقت بھی نہیں جب علینہ نے کہا تھا
’’مجیب! میں کب سے منتظر و مضطرب تھی، جانتے ہو ایک ایک پل کانٹوں پے گزرا ہے میرا‘‘
علینہ یہی کہہ پائی تھی کہ مائی شمّوکی آواز نے دونوں کو چونکا دیا۔
٭٭٭
علینہ اس کے اپنے ہی گاؤں کی تھی، مقامی اسکو ل میں بچوں کو پڑھاتی۔ ۔ ۔ کس سلیقے سے فرشتوں نے اسے سنوارا تھا۔ مصور ازل کی تمام تر عنایتوں اور مہربانیوں نے اسے شاہ کاربنا دیا تھا۔ گاؤں کا گاؤں ہی تو اس کا متمنی تھا۔ کو ن تھا ایساجو اس نوبہارِ ناز کا اسیر نہیں تھا۔ بولتے نقوش، کھنکتی، مسکر اتی آواز۔ ۔ ۔ مجیب سے لوگ بھی جو پاگل ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ تو ایسے ہی نہیں ۔
’’مجیب !کس قدرچاہتے ہومجھے ؟‘‘
علینہ نے اس سے پوچھا ۔ ۔ ۔ اور پھر مجیب نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا تھا
’’بھلایہ کیاسوال ہوا۔ ۔ ۔ خودسے کوئی کتنی محبت کر تا ہے ؟ میں تمھیں خودسے الگ تھوڑی سمجھتا ہوں ۔ تیری محبت میری شریانوں میں خون کی طرح دوڑرہی ہے ۔ میری سانسوں کا اعتبار تم سے ہے ‘‘
علینہ اس کے جواب پرخوشی سے نہال ہو گئی تھی۔ ۔ ۔ وقت نے رُکناکہاں سیکھا ہے ، جو وہ مجیب اور علینہ کا انتظار کر تا۔ بس سبک رفتاری سے گزرتاہی رہا۔
وہ رات مجیب پربہت بھاری تھی۔ فیصلہ کرنا اس کے لئے ناممکن تھا۔ ایک طرف اپنے اور علینہ کے والدین کی عزت کا سوال تھا، تو دوسری طرف سانسوں کی مالاکے بکھرنے کا خدشہ۔ علینہ اس کے لیے گھرتو کیازندگی چھوڑنے کو تیارتھی۔ اس نے دردمندی سے ہی سہی فیصلہ تو سنا دیا تھا
’’مجیب!جیانہیں جائے گامجھ سے تیرے بغیر، ابا کا انکار میں کہاں برداشت کر پائی ہوں ۔ ۔ ۔ علینہ کو اس دنیاسے کہیں دُور لے چلو!۔ ۔ ۔ دُور بہت دُور۔ ‘‘
یہ کہتے ہوئے اس نے مصحف رُخ پراپنی ہتھیلیوں کا غلاف چڑھا لیا تھا۔ مجیب لفظوں کو تصویر کر نے کے ہنر سے ناواقف۔ ۔ ۔ بس سوچتا ہی چلا گیا۔ وہ کم ہمت تھایاپھر معاملہ فہم۔ ۔ ۔ جبھی تو اس نے یہ کہا تھا
’’علینہ! میں مایوس نہیں ہوں ، تمھارے ابومان جائیں گے ، تم حوصلہ رکھو‘‘
٭٭٭
کوئی نہیں جانتا تھاکہ مجیب کہاں چلا گیا۔ البتہ اس کے عشق کے چرچے ضرور عام ہوئے ۔ اس کی والدہ غم سے نڈھال، نیم پاگل، جو کوئی دکھائی پڑتا۔ ۔ ۔ اس سے مجیب کے بارے میں معلوم کر تی۔ ۔ ۔ دیواروں سے کہتی پھر تی۔ اس کا والد اس کی تلاش میں کہاں کہاں نہیں پھر ا۔ اخبارات میں اور ٹی وی پر گم شدگی کے اشتہارات چلے ۔ ۔ ۔ مگرسب بے سود۔ ایک سال، دوسال اور پھر تیسرے سال کا آخری سورج بھی غروب ہو گیا، لیکن مجیب نہیں پلٹا۔
٭٭٭
بابا اصحاب کے دالان میں عرس شریف کی تقریبات بڑے زوروشور سے جاری تھیں ۔ مزارکے چاروں اور قطاراندر قطار دیے جلنے بجھنے کے عمل سے گزر رہے تھے ، فضا پر علی۔ ۔ ۔ علی۔ ۔ ۔ کے نعروں کی گونج چھائی ہوئی تھی۔ زائرین عقیدت سے مزارکی طرف دیکھتے ، دعائیں کر تے ، منتیں مانتے ۔ ۔ ۔ موجی سائیں زائرین کے شور سے بے نیاز، دنیا و ما فیہا سے بے خبر، مزار شریف کے احاطہ کی خستہ جا لیوں کا سہارا لیے بہ چشم نیم بازنیم درازتھا کہ، ایک شخص اس کی طرف لپکا اور گھڑی بھر میں اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ اسے سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا۔ پہلی باراسے اپنی شکستگی کا احساس ہوا۔ خواہش اور کو شش کے باوجود وہ کچھ نہ کر سکا۔ انسانوں کے دائرے میں وہ ساکت وجامدصدیوں سے پڑے پتھرکی ماننددکھائی دیا۔ حملہ اور نے اپنے دیگرساتھیوں کو بھی بلا لیا۔ ایک شور۔ ۔ ۔ قیامت برپا کر دینے والا شور ۔ ۔ ۔ جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ آوازیں چاروں اور سے اس کا تعاقب کر تیں اور وہ چیخ چیخ کر کہتا
’’ میں مجیب نہیں ہوں ، موجی ہوں ، موجی سائیں ‘‘
پھر حملہ اور وں میں سے ایک اس قریب آیا، نہ جانے اس نے کیابات اس سے کہی کہ وہ خاموشی سے ان کے ساتھ ہولیا۔ موجی سائیں کا خدمت گار۔ ۔ ۔ فیقابھی دبے قدموں پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ زائرین عقیدت مندی میں مصروف ہو گئے ۔ موجی سائیں کے جان کاروں میں سے ایک نے کہا
’’آ جائیں گے سائیں !۔ ۔ ۔ انہیں کوئی کیاکہہ سکتا ہے ۔ ‘‘
٭٭٭
بابا اصحاب کے احاطہ سے نکل کر وہ سب موچی بازار کی تنگ وتاریک گلیوں سے ہوتے ہوئے بڑی سڑک پرآ گئے ، جہاں زندگی حسب معمول رواں دواں تھی۔ لاری اڈے پر موجی سائیں نے فیقے کو اپنے سینے سے لگایا۔ ۔ ۔ اور واپس کر دیا۔ کہنے والوں نے کیا نہیں کہا تھا اُسے ۔ مجیب کی والدہ کی حالت ۔ ۔ ۔ علینہ کی جرأت کی داستاں ۔ ۔ ۔ گاؤں بھرکی باتیں ۔ ۔ ۔ رفتہ کے قصے ، فرداکے اظہاریے ، مگر اس کے لفظ تو کہیں کھو گئے تھے ، گویاوہ بولنا ہی بھول گیا تھا۔ اسے کچھ کہناہی نہیں تھاشاید۔ لاری سے اُتر کر وہ ایک تانگے پر سوار ہو گئے ۔ اردگردکا ماحول اسے کچھ مانوس، کچھ اجنبی دکھائی دیا۔
رانی ماں کی تاریک کنویں جیسی آنکھیں روشن ہو گئیں ۔
’’مجیب یہ کیاحال بنا لیا ہے تو نے ؟‘‘
کہتے ہوئے اس نے اپنی بانہیں موجی سائیں کو سینے میں بھرلینے کیلئے پھیلا دیں ۔ جانے کتنی ہی دیرموجی سائیں رانی ماں کی چھاتی سے چمٹ کر روتا رہا۔ شاید دونوں روتے رہے ۔ پھر کتنی ہی شرمندگی، لجاجت اور منت کر تے ہوئے موجی سائیں نے رانی ماں کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا
’’ماں !مجھے معاف کر دے ، میں نے تمھیں ستایا ہے نا‘‘
اور رانی ماں ۔ ۔ ۔ جی واری، جی صدقے ، جی کہول ۔ ۔ ۔ ک اور د کر تی رہی۔
٭٭٭
مجیب کی واپسی پرگاؤں بھرخوش تھا۔ ہرکوئی اس کی دل جوئی میں مصروف رہتا ۔ ۔ ۔ گزرے وقت کی باتیں سناتا۔ اور علینہ۔ ۔ ۔ ؟ بھلا علینہ سے زیادہ اس کی واپسی کی خوشی کسے ہوئی ہو گی؟اس نے تو مجیب کی خاطراپنی زندگی داؤپرلگائی تھی۔ گاؤں کی کو ن لڑکی تھی بہ جزاس کے جس نے پسندکی شادی کا نہ صرف اعلان کیا، بلکہ مجیب کے سواکہیں بھی شادی سے انکار کر دیا تھا۔ علینہ نے مجیب کی خاطر بے غیرتی، بے حیائی کے طعنے تک سنے ۔ وہ تو لمحہ لمحہ اس کے لئے مرتی اور جیتی رہی۔
علینہ اور مجیب کا رشتہ طے ہو گیا۔ محرم کی بیس تاریخ شادی کے لیے مقرر ہوئی ۔ دونوں خاندان قریب سے قریب تر ہو گئے ۔ ۔ ۔ غم اور خوشی کے موسم بتا کر تھوڑی آتے ہیں ۔ خوشی سی خوشی تھی۔ ۔ ۔ وہ دونوں تو گزرے ہوئے سالوں کی راکھ تک کو دفن کر چکے تھے ۔ زخم یوں مندمل ہوئے گویاکبھی تھے ہی نہیں ۔ اور جانیے ۔ ۔ ۔ رستے زخموں پرکھرنڈآ جائیں تو دُکھ کا احساس کسے رہتا ہے ؟
دونوں طرف پوری شدومدسے شادی کی تیاریاں جاری تھیں ، ٹھیک چار دن بعد مجیب اور علینہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ایک ہونے والے تھے ۔ شادی کے لیے خریداری کی غرض سے مجیب اپنے ماموں زادبھائی شاہ میرکے ہم راہ نواحی شہرگیا۔ وہ جمعہ کا دن تھا۔ ۔ ۔ سولہ محرم کا دن۔ انہوں نے کچھ خریداری کر لی تھی، کچھ باقی تھی۔ دونوں بھائی شہرکی جامع مسجد میں نمازجمعہ کی ادائیگی کے لیے داخل ہو گئے ۔
کس قدرسرشاری اور ممنونیت سے وہ خداکے حضور جھکا تھا۔ ۔ ۔ رہ رہ کر اُسے علینہ یادآ رہی تھی۔ جوں جوں علینہ اس کے اعصاب پرحاوی ہوتی گئی وہ خداکی شکر گزاری میں بڑھتا گیا۔
٭٭٭
سانسوں کی مالاٹوٹ کر بکھرگئی تھی۔ مجیب اور شاہ میرکی میتیں جب گاؤں لائی گئیں تو گاؤں بھر میں کہرام مچ گیا۔ ہر آنکھ اشک بارتھی اور ہرزبان پر قاتلوں کے لیے بد دعائیں ۔ ۔ ۔ نامعلوم دہشت گردوں نے ان سمیت سات افرادکو نمازِجمعہ کی ادائیگی کے دوران
اندھادھندفائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔
خاور چودھری

Post a Comment