کورونا نے جہان دنیا بھر میں تباہی مچا دی وہیں اس کا ایک مثبت پہلو یہ رہا کہ ادب اور کتاب کی دنیا میں بے پناہ نئی تخلیقات کو جنم دیا۔انہی تخلیقات میں ایک اہم تخلیق لطافت علی صدیقی کی کتاب ’ہزاروں انکشافات‘ جس کا ذیلی عنوان ہے، سازشیں، سیاہ راتیں، قاتل و مقتول کی داستانیں۔ یہ کتاب پاکستان کی سیاسی تاریخ کا آنکھوں دیکھا احوال ہے۔ لطافت علی صدیقی کا تعلق بقول معروف صحافی احفاظ الرحمنٰ صحافیوں کی اس کھیپ سے ہے جو درد مند دل اور صاف ہاتھ رکھتے ہیں اور اپنے پیشی کی حرمت کا بھی احساس رکھتے ہیں۔ لطافت علی نے اپنی صحافیانہ زندگی کے تجربات و مشاہدات قلم بند کرکے ہمیں پاکستان کے اہم واقعات کو ایک صحافی کی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع دیا۔ یہ اس زمانے کی داستان ہے جب لطافت علی صدیقی کا آتش جوان تھا یہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایسا وقت تھا جس نے ہماری سیاسی تاریخ ہی بدل ڈالی۔ ایک بڑےمفکر کا کہنا ہے کہ دنیا کی حقیقت تو چند لفظوں میں بیان ہو سکتی ہے پھر اتنی ڈھیر ساری کتابیں کیوں؟۔ تاکہ ہم دنیا کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ کتاب کا پیش لفظ اشفاق حسین نے لکھا ہے۔ پہلے باب میں صاحبِ کتاب نے کتاب لکھنے کی وجہ اور اپنی یادداشتوں کا ذکر کیا ہے۔ دوسرا باب قائد اعظم کی موت کے بارے میں ہے کہ آیا بابائے قوم زیارت میں ہی دم توڑ چکے تھے؟ 1975 میں لطافت کو دو اور صحافیوں کے ہمراہ کوئٹہ ریذیڈنسی میں رہنے کا موقع ملا اور وہاں ایک بوڑھے ملازم سے انہوں نے اس حوالے سے معلومات حاصل کیں۔
تیسرا باب ہے ”فاطمہ جناح کو کسی نے خاموشی سے خاموش کر دیا“۔ لطافت اس وقت جو نئیر رپورٹر تھے۔ وہ پہلے رپورٹر تھے جو پولیس کے ساتھ دروازہ ٹوٹنے کے بعد محترمہ کے کمرے میں پہنچے اور ان کے سوالات پر پولیس والے نے انہیں دھمکایا کہ اگر وہ وہاں سے نہ گئے تو ان کی بھی لاش وہاں پڑی ہو گی۔
چوتھا باب نصرت بھٹو اور بے نظیر کی بھٹو سے اخری ملاقات کے بارے میں ہے جس کا احوال بے نظیر نے خود لطافت علی صدیقی کو سنایا۔ ”اچھا تو آج تم دونوں کو ایک ساتھ ملاقات کرانے کے لئے میرے پاس لایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ
ہماری آخری ملاقات ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ آج کی رات مجھے پھانسی دی جائے گی“ یہ تھے ذوالفقار علی بھٹو کے وہ الفاظ جو انہوں نے اپنی شریک حیات نصرت اور اپنی عزیز ترین بیٹی بینظیر کو اچانک اپنی موت کی کوٹھری میں دیکھ کر کہے تھے۔
پانچواں باب فضائی حادثے میںسابق صدر جنرل ضیاالحق کی موت کے بارے میں ہے۔ ”ضیاالحق کو تو انہیں مارنا ہی تھا۔ بیرونی قوتوں نے ان سے جو کام لئے تھے، وہ سب راز ضیا الحق کے پاس ہی تو تھے۔“
چھٹا باب اندرا گاندھی کے بارے میں ہے۔ مصنف کی رائے میں اندرا گاندھی سرد جنگ کی نذر ہو گئیں۔ اس حوالے سے انہوں نے ہمارے اس زمانے کے احفاظ الرحمنٰ اور میرے دوست صبیح الدین غوثی کے ساتھ لگائی جانے والی شرط کا بھی ذکر کیا ہے۔ غوثی نے امریکہ کے ایک جریدے کی ہیڈ لائن دیکھ کر کہا تھا ”سنو مائی گئی“۔ لطافت علی صدیقی اور ان کے درمیان شرط لگ گئی اور لطافت ہار گئے۔
ساتواں باب حسین شہید سہروردی کے بارے میں ہے جو بیروت کے ہوٹل میں مردہ پائے گئے تھے۔
آٹھواں باب جنرل آصف نواز جنجوعہ کی موت کے بارے میں ہے۔ نواں باب ایک بے روزگار صحافی کی موت اور عبدالستار ایدھی کے بارے میں ہے۔
دسواں باب لطافت کی ان سچی خبروں کے بارے میں ہے جو شائع نہ ہو سکیں۔ باب گیارہ میں صاحبِ کتاب نے اپنی کہانی اپنی زبانی سنائی ہے جب ایک سٹے باز نے لندن میں لارڈز ٹیسٹ میں پاکستان کی فتح کے بعد انہیں نوٹوں سے بھرا بریف کیس دینا چاہا لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔
باب بارہ میں انہوں نے ڈرگ مافیا سے ٹکر لینے کی کہانی سنائی ہے۔ ویسے تو بہت سے صحافیوں کی طرح لطافت علی صدیقی کو بھی اکثر پولیس نے تھانوں میں بند کیا اور ڈنڈے بھی مارے مگر اس باب میں انہوں نے اس دن کی کہانی سنائی ہے جب ہیروئن کا کاروبار کرنے والوں نے انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دی۔ باب تیرہ خان عبدالولی خان اور مفتی محمود کے ان انٹرویوز کے بارے میں ہے جو بر وقت شائع نہ ہو پائے۔
باب چودہ عمران خان کی باتوں کے بارے میں ہے۔
باب پندرہ کرکٹ کی دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرنے والے لٹل ماسٹر محمد حنیف کو زبردستی ریٹائر کروانے کے بارے میں ہے۔ ان سارے ابواب سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ لطافت ایک دبنگ اور بولڈ اور نڈر صحافی تھے ان کی یہ کتاب ورق ورق تاریخ ہے۔
لطافت علی صدیقی کی یہ کتاب 160 صفحات پر مشتمل ہے،اسےکینیڈین ایشین نیوز کینیڈا نے شائع کیا ہے پاکتان میں اس کے تقسیم کار فضلی بکس،اردو بازار کراچی ہیں کتاب کی قیمت پاکستان میں صرف 300 روپے مقرر کی گئی ہے جو اسی معیاری کتاب کے لحاظ سے بہت کم ہے،کینیڈا میں اس کی قیمت 25 ڈالر ہے

1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں