کھلی آنکھوں کے سارے خواب جاگے
انہی آ نکھوں میں زیرآب جاگے
ہلال_عید کو سونے کی جلدی
اگر جاگے تو وہ ماہتاب جاگے
نصیبوں کی طرح ہیں لوگ سوئے
ہر اک پل تو دل ۔بے تاب جاگے
یہ دل توجاگتا رہتا ہے ہر دم
بڑھاپے میں مگر اعصاب جاگے
مفکر نے تو سب کچھ لکھ دیا ہے
کتابوں میں سنہرے باب جاگے
کہیں محرومیوں نے جان لے لی
تو پھر جا کر کہیں احباب جاگے
رضا صدیقی سلامت رہو ادب کے لئے آپ کی خدمات بے شمار ہیں
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں