شہزاد نیئر
جب بھی چُپکے سے نکلنے کا ارادہ باندھا
مجھ کو حالات نے پہلے سے زیادہ باندھا
چلتے پھرتے اسے بندش کا گماں تک نہ رھے
اُس نے انسان کو اس درجہ کشادہ باندھا
کتنی بھی تیز ھوئی حِرص و ھوس کی آندھی
ھم نے اک تار ِ توکل سے لبادہ باندھا
یک بہ یک جلوہء تازہ نے قدم روک لئے
میں نے جس آن پلٹنے کا ارادہ باندھا
تو نے سامان میں جب باندھ ھی دی تھی منزل
کس لئے یار مرے پاؤں میں جادہ باندھا
اس نے دل باندھ کے اک آن میں بازی جیتی
ھم تو سمجھے تھے فقط ایک پیادہ باندھا
سادگی حسن کی شعروں میں بیاں کرنی تھی
لفظ آسان چُنے ، مصرعہء سادہ باندھا "

Post a Comment