افتخارعارف ای سی اوکے کلچرل انسٹی ٹیوٹ کے صدرنشیں ہو کر تہران جا رہے ہیں اور مجھے یوں گمان ہو چلاجیسے کہ یہ نئی وضع قطع والااسلام آباد ، جو افتخار عارف کی مخزوں آواز کے وسیلےسے اپنی تہذیب سے، اپنے ماضی کے روشن لمحوں سے، میر، غالب، اقبال ،بیدل اور انیس کی مسحور کن آوازوں سے ۔ کربلا،مشکیزے ،عَلَم ،عِلم کے حلم میں بہم ہونے سے جڑ کرمحض سیاست اور گریڈوں والا شہر نہیں رہا تھا ، دھڑکتے دل والازندہ وجود ہو گیا تھا،اس کے اندر سے روح سرکتی ہوئی نکل رہی ہے ۔ خیر یہی دستور ہے کہ کوئی آئے اور کوئی جائے۔ اور یہ بھی واقعہ ہے کہ اسی آر جار میں امکانات کی ایک دنیا آباد ہے ۔ میں نے افتخار عارف کو تہذیبیشخصیت کہا اور اس پر یہ اضافہ بھی کرنا ہے کہ اپنے تہذیبی حوالوں سے بامعنی ہوتی شاعری کی ایک خاص دھج کی وجہ سے افتخار عارف کا اپنے ہم عصروں میں بالکل الگ اورممتاز ہوجانا کوئی کم اہم واقعہ نہیں ہے ۔ فقط شاعری کرنا اور زبان کو اُلٹ پلٹ کربرتنا اس کے امکانات کو کھنگالنا اور قافیہ ڈھونڈتے ہوئے دور کی کوڑی لے آنا ، نئےعہد کی الجھنوں میں الجھ جانا اور نئے مزاج کے الجھیڑوں کو مصرع بنا لینا یقیناشاعری کے باب میں کچھ کم اہم نہیں ہوگا کہ اس طرح آپ ڈھنگ کی بات نہ بھی کہہ پائیںتو آنے والوں کے لیے کچھ کہہ لینے کی راہ ہموار ضرور کر رہے ہوتے ہیں ۔ مگر افتخارنے اپنی شاعری کو اس مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا ۔ افتخار عارف کی شاعری کا مزاجتہذیب اور روایت کی جڑت سے ڈھلتا اور نکھرتا ہے ۔ بہ قول فیض ،افتخار نے جدیدمطالب کی ادائی میں روایت کے خزینے سے یوں کسب فیض کیا ہے کہ تلمیح کو علامت اورعلامت کو استعارے کا روپ دے کرنظم اور غزل دونوں کے لیے رمز وکنایہ کا نیا سامانپیدا کیا ہے۔ افتخار کی شاعری کامزاج ایک الگ وضع کے رکھ رکھائو، بولتے ہوئے الفاظ کی بر محل نشست کے اہتمام اورسماعتوں کو فورا ًاپنی جانب متوجہ کرنے والے صوتی آہنگ سے متشکل ہوتا ہے ، یہ ایساآہنگ ہے جس میں صوت، مصرع کے معنیاتی نظام میں ایک ترفع کا احساس جگادیتی ہے اورمصرع مکمل ہونے پریہ صوت خاموش بھی نہیں ہوتی، لہروں کی صورت اگلے مصروں تک پہنچتی ہے ؛ نئی صوتی لہروں کو جگانے کے لیے ۔ فکر اور جذبے کا عصری سانحات کے علاوہتہذیبی ماضی کے ساتھ جڑکر بیان ہونا، یوں کہ پیاس ، گھرانا، بستی ، قافلہ ،بیعت،جوہر، پندار، مقتل ، قیدخانہ، خیمہ، صبر، زمین ، مکان اور گھر جیسے الفاظ ویسے نہیںرہتے جیسے کہ وہ لغات میں یا تاریخ میں پڑے ہوتے ہیں یا جیسے کہ وہ پہلے سے موجودشاعری میں برتے گئے کہ افتخار نے انہیں نئے طرح کے عذابوں اور سرابوں کے مقابل ہونے والے قدیم انسان کا مخزوں دل بنادیا ہے۔ یہ بات تسلیم کی جانے لگی ہے کہ ایکخاص تہذیبی فضا اور فکری نظام سے جڑا ہواشاعر، الگ طرح کی عالی لفظیات والا اورلفظوں کو پورے تہذیبی شعور کے ساتھ برتنے والا ، جو فیض کے قبیلے کا ہے مگر الگہوکر سب کی توجہ کھینچتا ہے وہ افتخار عارف ہی ہے۔ یہیں کہتا چلوں کہافتخار عارف ایسی شخصیت ہے ہی نہیں جسے سہولت سے سمجھا جا سکے وہ تو تند مگر شفافپانیوں کے نیچے بیٹھی اس ریت کی طرح ہے جو ہر دم خالص رہتی ہے اور جسے مٹھی میںبھرنا چاہو تو بپھر کر بکھر جاتی ہی۔ افتخارعارف کو اس زمانے سے جانتا ہوں جب وہٹیلی وژن پر بیس سوالوں میں شخصیت بوجھ لینے والا کھیل کھیلا کرتے تھے ۔ تو یوں ہےکہ وہ ٹیلی ویژن والا افتخار ہو یا ریڈیو پر خبریں پڑھنے والا، اردو مرکز والاافتخار ہو یا اکادمی ادبیات ، مقتدرہ قومی زبان اور پھر نمل یونیورسٹی والا ان سبپر خالص شاعر، بولتا دانشور اور تہذیبی شخصیت کی چھاپ نمایاں رہتی ہے ۔ ہماری جان پہچان دو صدیوں میں پڑتی ہے اور اسے دو دھائیوں سے زیادہعرصہ ہو چلا ہے؛یوں میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے انہیں بہت قریب سے دیکھا،سنا اورپرکھا مگر اس کے باوجود کہنا پڑے گا کہ میں انہیں ڈھنگ سے سمجھ نہیں پایا ہوں۔ ہنستاہوا چراغ‘ چاہے تو پل بھر سب کچھ اُجال دے ‘پینترا بدلے تو تپتا ہوا تیل ٹپکانے لگی۔ مگر ہر بار نتیجہ ایک ہینکلا کہ وہ دل کے اور قریب ہو گئی۔ خبریں پڑھنے سے خبر بننے تک اور قومی اداروں کیمسلسل سربراہی نے اگر ایک طرف ان کی شخصیت کو کچھ وقت کے لیے متنازعہ بنایا اور سبکے ذہنوں میں حاضر بھی رکھا تو دوسری طرح وہ انہی کی وجہ سے اندر ہی اندر سے ٹوٹتابھی رہا ہے جس دن سے ہم بلندنشانوں میں آئے ہیں ترکش کے سارے تیرکمانوں میں آئے ہیں ۔۔۔ روز اک تازہ قصیدہ‘نئی تشبیب کے ساتھ رزق برحق ہے ‘ یہخدمت نہیں ہوگی ہم سے تاہم اسی ساری تگ وتاز میں مثبت پہلو یہ ہے کہ وہ ان اداروں کی توقیر میں اضافہ کا باعث بنے۔ اوریہکشمکش ان کے ہاں تخلیقی تجربے کا ساماں ہوتی رہی ہے۔ ساٹھ کی دہائی کے خاتمے پر جنشاعروں کے ساتھ افتخار عارف نے اپنا سفر آغاز کیا تھا ان میں سے جو بچ رہے ہیں وہسب وہی ہیں جنہوں نے اپنے تہذیبی ‘فکری اور جمالیاتی ورثے سے دست کش ہونا گورانہیں کیا۔ افتخار عارف کی ’’مہر دونیم‘‘ سے ’ ’حرف باریاب‘‘ اور بعد کی شاعری نگاہمیں ر ہے تو وہ جس وضع کی فضا میں اپنے تخلیقی وجودکو رکھتے محسوس ہوتے ہیں ،اس نےاردو شاعری میں تہذیبی اورمذہبی استعاروں کے حرکی تصور کے لیے فضا باندھ کر رکھ دیہے خلق نے اک منظر نہیںدیکھا بہت دنوں سے نوکِ سناں پر سر نہیںدیکھا بہت دنوں سی ۔۔۔ اپنے اپنے زاویے سےاپنے اپنے ڈھنگ سے ایک عالم لکھ رہا تھاداستان کربلا ۔۔ ۔ ہزار بار مجھے لے گیاہے مقتل میں وہ ایک قطرہ خوں جورگ گلو میں ہی ۔۔ ۔ دل اس کے ساتھ مگرتیغ اور شخص کے ساتھ یہ سلسلہ بھی بہت ابتداکا لگتا ہے افتخار عارف کےتخلیقی وجود کا دوسرا اہم حوالہ دربدری کا احساس ہے جو نان و نمک کی طلب میں مارامارا پھرنے کی ذلت اور اذیت سے جڑ کر اور بھی شدید ہوگیاہے ۔ یاد رہے افتخار عارفکے ہاں دربدری کا یہ احساس ایک تہذیبی انہدام کے رواں سانحے سے جڑا ہوا ہے۔ افتخارکی نظم سے ایک مقتبس اور پھر غزل کا وہ شعر جو زبان زد عام ہے ۔ یہ دنیا اک سور کے گوشت کی ہڈی کی صورت کوڑھیوں کے ہاتھ میں ہے اور میں نان و نمک کی جستجومیں در بدر قریہ بہ قریہ مارا مارا پھر رہاہوں ذرا سی دیر کی جھوٹی فضیلت کے لیے ٹھوکر پہ ٹھوکر کھا رہا ہوں ‘ہرقدم پر منزل عزو شرف سے گر رہا ہوں ( یاسریع الرضااغفرلمن لا یملک الالدعا) ۔۔۔۔۔۔ میرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے میں جس مکان میں رہتاہوں اس کو گھر کر دے میری نظر میں افتخارعارف کی تخلیقی فضا کا تیسرا بڑا حوالہ اس کا اسلوب بنتا ہے ۔ یہ اسلوب بامعنیتراکیب سازی کے ہنر سے متشکل ہوا ہے۔ لفظوں کی نشست کو دھیان میں رکھ کر اصوات کےنظام کی تعمیر اور مصرع بناکر اس میں ایک حزنیہ عُجب اور تہذیبی مہک میں رچی بسیتازگی بپا کر دینے کی توفیق نے اسلوب میں اور نکھار پیدا کیا ہے۔ جمالیاتی چھوٹ کےہمراہ درد میں ڈوبی معنیاتی دبازت،اور مابعد کے مصرع سے اس کے زندہ اتصال و انسلاکسے ایک ہی وقت میں خیال کی احساس کی سطح پر تجسیم اور محسوسات سے فکر یات تک صوتی لہرکےاندر ہی اندر منتقل ہونا افتخار عارف سے منسوب اسلوب کا خاصہ ہوگئے ہیں ۔ یہ ایسیکٹھن راہ ہے جس پر افتخار عارف کے علاوہ کوئی اور چلتا تو اس کی سانسیں کب کی پھولچکی ہوتیں ۔ افتخار عارف نے کہا تھا خواب دیکھو اور پھرزخموں کی دل داری کرو افتخار عارف! نئی منزل کی تیاری کرو نئے نئے خواب دیکھنےوالے افتخار عارف اُدھر تہران جارہے ہیں اورمجھے یقین ہے کہ یہ مرحلہ اُن کی توقیرمیں اضافے کا سبب تو ہوگا ہی خود اِدھر اُدھر کے ادب کے لیے بھی مفید ہو گا۔ ن مراشد اُدھر ایران گئے تھے تو ان کی نظم کا ذائقہ بدل گیا تھا پھر وہ وہاں کےشاعروں سے اردو والوں کو متعارف کروا گئے ۔ ایسی ہی امیدیں افتخار عارف کے باب میںہو چلی ہیں ۔ اگر ایک طرف ایران عالمی سامراج کے سامنے نہ جھکنے والے واحد اسلامیملک کی حیثیت سے اپنی شناخت مستحکم کر چکا ہے تو دوسری طرف واقعہ یہ ہے کہ وہمقاطعوں کی زد پر ہے۔ ایسے میں اس طرح کے اداروں میں کام کرنا ، جس میں افتخارعارف جارہے ہیں کچھ اور کٹھن اورصلاحیتوں کا کڑا امتحان ہو جاتا ہے ۔ امید کی جانیچاہیئے کہ افتخار عارف کی تہذیبی شخصیت ای سی او ممالک کے بیچ ثقافتی اور ادبیرابطوں کی نئی نئی صورتیں سامنے لائے گی۔ حلقہ ارباب زوق اسلام آبادکے زیر اہتمام تقریب میں افتخار عارف، فتح محمد ملک،احسان اکبر، عابدہ تقی اور محمد حمید شاہد

Post a Comment