’’لڑکی گونگی ہو تو زیادہ بہتر ہے؟!‘‘
میرے اِس جواب پر والدہ صاحبہ کے چہرے پر سے ہنسی غائب ہو گئی ۔ میرا خیال تھا وہ خوش ہوں گی۔ ’’ نہیں بیٹا ایسا نہیں کہتے۔ مجھے بہو چاہیے گونگی نہیں‘‘ ۔ ’’ اچھا ہے ماں جی…. نہ وہ آپ کے کان کھائے گی نہ ہی مجھ سے ہر دم فرمائشیں کر تی پھرے گی اور زندگی رہے گی پرسکون؟!‘‘۔ میں نے مسکراتے ہوئے برجستہ کہا۔
’’ کیا خاموشی پرسکون زندگی کی علامت ہے۔ وہ تمھارا ہمسایہ دلاور کیا پُر سکون زندگی گزار رہا ہے۔ جس کو اللہ نے اولاد کی نعمت سے محروم رکھا اور بیس سال تک وہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اپنے ہار مونیم پر غزلیں گاتا بجاتا رہا۔
اب کے سال پونم میں جب تو آئے گی ملنے
ہم نے سوچ رکھا ہے رات یوں گزاریں گے
مجھے دلاور کی گائی ہوئی یہ غزل یاد آگئی ۔ جو سینکڑوں دفعہ ہم نے سردیوں کی خاموش راتوں میں سُنی کہ جب یا تو علی کے دادا جن کو کینسر تھا وہ درد سے کراہ رہے ہوتے تھے یا دلاور ’’ چیخ ‘‘ رہا ہوتا تھا۔ کچھ درد قدرتی ہوتے ہیں اور کچھ دُکھ انسان نے خود پال رکھے ہوتے ہیں۔
’’ اب کے سال پونم میں جب تو آئے گی ملنے‘‘
پرسُوں دلاور نے اپنا ہارمونیم جو اُسے جان سے زیادہ عزیز تھا ۔ بیچ ڈالا ۔ گلی میں پرانا لوہا خرید نے والے کو۔ اُس نے بے دردی سے ایک بڑی سی اینٹ لے کر ہارمونیم کو مار مار کر توڑ ڈالا۔ لکڑیاں اِدھر اُدھر بکھر گئیں۔ تھوڑا سا پیتل نکلاجو۔ اُس نے پرانے لوہے والے بڑے شاپر میں ڈالا۔ اور ’’ پرانا لوہا بیچ‘‘۔ بولتا ہوا وہاں سے نکل گیا۔ اور بے چارہ دلاور دیکھتا ہی رہ گیا۔ اور سوچتا ہو گا کہ اب کہ میں کیسے گاؤں گا ۔ دل میں اُتر جانے والی غزلیں؟!۔
دلاور نے مُنہ دیوار کی طرف پھیر لیا۔ اُس کی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں نے اُس کی دلی کیفیت بیان کر دی۔ انسان انسانوں سے ہی محبت نہیں کرتا۔ یہ محبت پرند چرند۔ کتاب پُھول ۔ تتلی اور ۔ بہت سی چیزوں سے ہو سکتی ہے۔
دلاور کدھر جاؤ گے اِس ہارمونیم کے بغیر ۔ میں نے پُوچھا۔ ’’ وہ مزید اُداس ہو گیا۔ میں اُسے گھر لے آیا۔ ہمارے گھر میں آج بھی چائے میں چینی کے ساتھ ساتھ نمک بھی ڈالا جاتا ہے۔ وہ چائے پی رہا تھا۔ مگر پلیٹ میں پڑے بسکٹ کی طرف اُس نے ہاتھ نہ بڑھایا ۔ ’’ دلاور یہ بسکٹ بھی رو رہے ہیں تمھارا ہارمونیم بک جانے پر‘‘۔
’’ باؤ ۔ ہارمونیم بک جانے پر نہیں۔ اُس کی پھیری والے کے ہاتھوں تذلیل پر‘‘۔ چُبھتے سوال کا تیکھا جواب فوراً ہی آگیا۔
دلاور بہتر نہیں تھا تم اخبار میں اشتہار دے ڈالتے۔ کچھ نئے گانے والے رابطہ کرتے۔ کچھ بیگمات فون کرکے پوچھ لیتیں۔ اور تم یہ ANTIQUEان کو بیچ ڈالتے مُنہ مانگے دام بھی مل جاتے۔ ویسے تم نے یہ پانچ سو میں بیچ کر ۔ فن کے مُنہ پر طمانچہ مارا ہے۔ یا موسیقی سے کوئی بہت پرانا بدلہ لیا ہے۔ کچھ چیزوں کو انسان نہایت شدت سے چاہتا ہے۔ اور کبھی کبھی نہ جانے کیوں اچانک نفرت یہ اترآتا ہے۔
’’ باؤ ۔ دل کی بات پوچھو تو میں اپنی بیس سالہ زندگی پر شرمندہ ہوں۔ ’’ ہائیں‘‘۔ میرا مُنہ کھلا رھ گیا۔ وہ درد بھری سریلی غزلیں۔ راتوں کی تاریکی اور گہری خاموشی میں رو رو کر گانے والا۔ اپنے اِس عمل پر بیس سال بعد شرمندہ ہے۔ میرا دل دُکھی ہوا۔ دلاور کی یہ بات سُن کر۔
اچھے بُرے کے فرق نے بستی اجاڑ دی
مجبور ہو کے ملنے لگے ہر کسی سے ہم
معاملہ بہت سنجیدہ تھا اور دلاور نے زندگی میں پہلی بار بسکٹ کھانے سے اکتاہٹ کا اظہار کیا۔ جس میں ناراضگی کا عنصر نمایا ں تھا۔
ایک جاندار قہقہہ بلند ہوا اور افتخارمجاز صاحب کی آمد ہوئی۔ حُضور اس قدر سنجیدہ کیوں۔ دو ’’ شریف‘‘ انسان کسی پوائنٹ پر غرق کسی بحر منجمد میں ڈوبے ہوئے ہیں؟!۔ ( یہ منفرد سٹائل ہے افتخارمجاز کا)۔ پھر تازہ خبر سنائی۔ ’’ دنیا میں سب سے زیادہ سی ۔ این ۔ جی اسٹیشن پاکستان میں ہیں؟‘‘۔ گویا۔ روٹی۔ مکان دینے والی حکومت نے دھڑا دھڑ سوئی گیس پٹرول کی جگہ بیچ دی یہ نہیں سوچا کہ گھروں میں چولہے بجھ جائیں گے؟!۔ میں نے جواب دیا اور پھر افتخارمجاز کو میں نے تفصیل بتائی تو سنجیدہ ہو گئے۔ ’’ مظفر ۔ ہارمونیم بجانے والا ہوگا تو ہارمونیم کی ضرورت ہوگی‘‘۔ ’’ یہ ہوئی ناں معقول انسانوں والی بات؟!‘‘۔ میرے مُنہ سے نکلا اور ماحول مزید سنجیدہ ہوگیا۔
’’ میں نے بتایا کہ گونگی لڑکی سے شادی کا ارادہ تھا‘‘۔ افتخارمجاز پھر گویا ہوئے۔ ’’ میاں کیا ایک دنیا دار انسان درختوں کے ایک جھرمٹ کے ساتھ زندگی گزار سکتا ہے۔ یا ےُوں کہہ لیں کی بڑے سے بڑا فلسفی بھی سمندر کنارے کُٹیا بنا کر لہروں سے دوستی کر کے زندگی کا طویل سفر پایہ تکمیل تک ہنسی خوشی پہنچا سکتا ہے؟۔
میں اُس افتخارمجازؔ کے ساتھ دلیل کے جواب میں دلیل دینے کی جرات کیسے کروں کہ بڑی چٹان کے ساتھ کبوتر سر ٹکرا ٹکرا کے زخمی تو ہو سکتا ہے۔ چٹان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ اور پھر افتخارمجازؔ کی تربیت کہہ لیں یا علمی ماحول میں پروان چڑھنا جہاں اعزاز احمد آذرؔ جیسا عالم فاضل بھائی ہر لمحہ ساتھ ہو۔ جس کے رات دن ؔ عدم ؔ کے ساتھ گزرے ہوں۔ ماہ و سال فیض احمد فیضؔ کے ساتھ ۔ کہ جو علم کے سمندر تھے۔ بہتے دھارے تھے۔ رواں دواں رہے!۔
بات بے با ت شعر کہنا افتخار مجاز کی خوبی ہے۔ اِس سے پہلے میں نے یہ خوبی جناب عابدؔ کمالوی میں دیکھی ہے۔ افتخار مجازؔ کے پاس ایسے بہت سے قصے کہانیاں ہیں کہ جن کو سنتے سنتے انسان۔ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتا ہے۔ کئی کئی گھنٹوں کی نشست بھی ناکا فی ہے۔ ان قصے کہانیوں کے لیئے ۔ اور کبھی کبھی یہ واقعات جب سنجیدہ شکل اختیار کر تے ہیں۔ تو مجاز کو چمکتی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگتے ہیں۔ اور سننے والا یکدم رو دیتا ہے۔ یہ سب پاکستان ٹیلی ویژن سے وابستگی کے باعث ہے کہ جہاں پنجاب یونیورسٹی سے ڈگری لینے کے بعد افتخار مجاز نے پی۔ٹی۔وی پر ملازمت اختیار کی۔
یہ شخص مزاح اُگلتا رہتا ہے۔ کبھی گفتگو میں اور کبھی قلم کے ذریعے سینکڑوں مزاحیہ تحریریں مُلک کے نامور اخبارات و میگزین میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ میری کوئی اچھی تحریر۔ جب بھی کسی اخبار یا ادبی رسالے میں چھپی ہے۔ صبح سب سے پہلے افتخار مجاز کا ایس ۔ ایم ۔ایس آیا ہے۔ ’’ مبارکاں جی۔ مبارکاں۔ خوب لکھا ہے حسن عباسیؔ پہ مضمون‘‘!۔
’’ کاش محبت کے جراثیم بھی اتنے ہی عام اور طاقتور ہوتے جتنے ڈینگی کے ہیں‘‘۔ ایسی کاٹ دار باتیں۔ تیکھے فقرے صرف اور صرف برجستہ اور عین وقت پر ہمارے بہت محبت کرنے والے ہر دم دعائیں دینے والے دوست اور بھائی جناب افتخار مجاز کے مُنہ سے نکلتے ہیں۔
تلخیوں کے اِس دور میں جب صدر پاکستان کا طیارہ بھی دبئی سے یہ پوچھ کر اڑتا ہے کہ پہلے مجھے یہ بتاؤ بلکہ یقین دلاؤکہ پاکستان میں گھٹا ٹوپ اندھیرے چھا چکے ہیںیا نہیں۔ پھر میں پاکستان جاؤں گا۔
جب نوجوان خواہش کریں کہ۔ ’’ میں خوبصورت مگر گونگی لڑکی سے شادی کروں گا‘‘۔ ہمیں افتخار مجاز جیسے خوش مزاج لوگوں کی قدر کرنی چاہیے۔ اُن کی محفلیں ہمارے لیے غنیمت ہیں۔ اور اُن کے ساتھ دوستوں کے لیے خوش کُن!۔
اب تو خوش ہو جائیں ارباب ہوس
جیسے وہ تھے ہم بھی ویسے ہوگئے
(ناصر کاظمی)

Post a Comment