میرے ماتھے کی چمک میں ہے
کسی اور زمانے کی جھلک
میرے ہونٹوں پہ لرزتے ہیں
کسی اور ہی دل کے نغمے
میرے کاندھے پہ چہکتے ہیں
کسی اور زمیں کے پنچھی.....
دور افتادہ کسی بستی میں
بادلوں میں کہیں
برفیلی ہواؤں سے لرزتے ہوے دروازوں میں
یاد کرتا ہے مجھے
ایک چہرہ کوئی میرے جیسا
یا پھر آنکھیں ہیں کوئی ، گہرے سمندر جیسی
جن میں بہتا چلا جاتا ہے ، وہ چہرہ
کسی ٹوٹے ہوے پتے کی طرح
یا وہ چہرہ ہے کہیں مٹی میں
پاس آتا ہے ، بلاتا ہے مجھے
مجھ سے ملتا ہے نہ ملنے کی طرح
کسی آئندہ زمانے کی تھکن کی مانند
عہد رفتہ کی جھلک کی صورت
جانے اس چہرے کی پہچان ہے کیا
جانے اس کا یا مرا نام ہے کیا ؟؟
ابرار احمد

Post a Comment