معاشرتی اقدار،تہذیبی ورثے اور تاریخی روایات کے ساتھ ہی آفاقی حقائق کے امتزاج سےہم شخصی اور معاشرے کے مجموعے مزاج وکردار کا جائزہ لے سکتے ہیں۔
معاشرے میں جو عمومی رویہفرد کے ساتھ اختیار کیا جاتا ہے اسے مشاہدے اور تجربے کی آمیزش کے ساتھ اظہار و بیان کی قوت تخلیقکار کو فراہم ہوجایا کرتی ہے۔
انسان کے ذہن میں بسا اوقات اوہام اور ان دیکھی دنیائوں کے تصورات بھی حقیقت کے روپ میں بار بار کی تکرار سے ظاہر ہونے لگتے ہیں۔۔۔۔۔اے کاش! ایسا ہوجاتا یا اے کاش کہ یہ ہوجائے کا ورد زبان کرتی ہے۔
فن کار اپنے گرد و پیش سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ صورتِ حال کی اصلاح کافریضہ اگر ادا نہیں کرپاتا تو کم از کم امکانی صورت تو ظاہر کرہی دیتا ہے۔
فطرت سے اکتساب کے ساتھ ہی چیزوں اور حالات و واقعات کو منطقی نقطہ ء نظر سے دیکھنے والے خصوصی حس کے مالک ہوتےہیں۔
ہمارے معاشرے میں خودآزاریوں ،مردم آزاریوں،اذیت کوشی اور اذیت پسندی کی لہر گزشتہ کئی برسوںدہشت گردوں کی لذت کوشی اور تسکین ِ نفس کا سامان بہم پہنچاتی رہی ہے۔
ایسے عالم میں اگر صرف سماجی،معاشرتی،مذہبی روایات و اقدار کی زبانی کلامی باتیں کرکے اصل معاملات کو نہ سمجھنا اور انکے رواج کے لیے کوشاں نہ رہنا ہر فرد کا مشغلہ بن گیا ہے۔ ہمیں دوسروں سے شکایت کا حق ہے مگر
خود اپنے کرداروافعال کا جائزہ لینےکی ہم میں ہمت باقی نظرنہیں آتی۔
گستاخی معاف یہ تلخ وترش گفتگوشاعری کے ضمن میں جچتی نہیں مگر ایسے حالات میں دل کا جو عالم ہوتا ہے وہ بیان کرنا ہی پڑے گا۔
جا و ید صبا سے ہماری شناسائی عزم بہزاد کے توسط سے ہے۔لیاقت علی عاصم،شاہد حمید،شاداب احسانی،خالد معین،اخترسعیدی،خواجہ رضی حیدر،ابرارعابد اور کئی دیگر شعرائ عصر سےہمیں عزم بہزاد نے متعارف کروایا ۔،
جاوید صبا سے رسمی سی شناسائی ہونے کے باعث ان کی کتاب بھی براہ راست نہیں ملی۔ان کا وعدہ ہے کہ تفصیلی ملاقات کے موقعے پر وہ ہمیں "عا لم میر ے دل کا"ضرور دیں گے۔
جاوید صبا کے نظریات شاعری کے بارے میں کیا ہیں، ان کا اندازہ "عالم میرے دل کا "کے فلیپپر فراق گورکھپوری کی 1942سن انیس سو بیالیس کی ایک رائے سے لگایا جاسکتا ہے جسے نقطہ نظر کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
سرِ دست ہم جاوید صبا کی شاعری کو دیکھنے سمجھنے کی کوشش کریں کہ دل کا معاملہ کس طرح کُھل سکتا ہے:
شکر صد شکر کہ ا س شہر ِ غزل میں ہم کو
کو ئی لا یا نہیں ہم آ پ ہی چل کر آ ئے
یہ احساس ہوجانا اور پھر اس کا اظہار کرنا عرفان و آگہی کی دلیل ہے۔اپنی ذاتپر اعتماد رکھنے والا ہی ایسی بات کہ سکتا ہے
ا پنے ہو نے کی سند لا ئیں گے گھر سے ا پنے
کبھی مہکے بھی تو مہکیں گے ا ثر سے ا پنے
بلا شبہ مانگی ہوئی یا مستعار لی ہوئی خوشبو سے مہکنا اچھی بات نہیں ہے۔
جاوید صبا کو یہ معلوم ہے کہ ان میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ کوئی ان کا ہوجائے مگرباوجود اس کے اگر کوئی بات نہ ہوتی تو لوگ ان کے کیوں ہوتے! ہمارے سامنےاب کچھ ان کےدل کا عالم کھلتا جارہا ہے
تم سے نہیں ملے تو کسی سے نہیں ملے
ملنا بھی پڑ گیا تو خو شی سے نہیں ملے
جو بے طلب تھا اس کی ہمیں جستجو ر ہی
جو ملنا چا ہتا تھا اُ سی سے نہیں ملے
جا و ید صبا ہمارے عہد کے صاف گو، کھرے اور بے باک شعراء کے قبیلے کے ایک حوصلہمند شاعر ہیں۔ وہ اپنی خود کلامی سے بعض اہم نکات اس طرح بیان کرجاتے ہیں کہ ان کے لب ولہجے کا اعتبار اور زندگی کے ناگزیر احساسات کا اظہار واضح نظر آتا ہے
وفا ہے جرم تو اک دوسرے کے قاتل ہیں
اک اعتبار سے میں ،ایک اعتبار سے تُو
وہ حقیقتوں سے منہ موڑنے کے بجائے ان کا سامنا جرءات سے کرتے ہیں
زیر ِ شمشیر َ ستم طا ق َ معیشت کو سلام
نفسانفسی کو دُعا،زرکی شریعت کو سلام
اقرار ِ باللساں ہی بہت ہے مگر کوئی
اقرار باللساں تہہ شمشیر بھی کرے
جاوید صبا کبھی کبھی شاعری کو یہ درجہ دینے پر بھی آمادہ نظرآتے ہیں
نہ آ سما نوں کو دیکھے نہ یہ زمینوں کو
یہ شاعری ہے ،چڑہا تی ہے آستینو ں کو
میر انیس کی وہ غزل ذہن میں لائیے۔۔۔۔انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
اس طرح میں معاصرین کی غزلیں پڑھی سنی ہیں نصیر ترابی نے کیا اچھا لکھا تھا۔۔نہ دامنوں کو خبر ہے نہ آستینوں کو
آپ میں سے اگر کسی کا دل چاہے کہ وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ نہیں شاعری کی یہ تعریف درست نہیں،عا لم میر ے د ل کا ،جاوید صبا کا مجموعہ
ایسا تو کُشتی لڑنے والے کہتے ہیں تو پھر اس اعتراض کا یہی جواب دیا جاسکتا ہے
میری غزل کے بعد نجانے کس کی روایت قائم ہو
میر سے لے کر میری غزل تک ایک کہانی بیچ میں ہے
تنہائی یا تنہا ہونے کا احساس ،اپنی ذات میں محبوس ہونا اور شعوروآگہی کی جستجو شعرائے کرام
کے خصوصی موضوعات ہوتے ہیں۔آئیے دیکھیں جاوید صبا کی تنہائیوں کی کیفیت کیا ہے
ا پنی آ و ا ز کی تکر ا ر سے با تیں کر نا
جشن ِ تنہائی ہے د یو ا ر سے باتیں کر نا
میں ا پنی خلو تیں کیسے مٹا د و ں
یہی لے د ے کے سر ما یہ ہے میر ا
اُ س سے بچھڑ کے ر و ح کا آ ز ا ر دیکھنا
اک خو ا ب اور وہ بھی لگا تار دیکھنا
رہتی ہے بے خودی میں بھی مجھ کو تری خبر
جو کام تُو کرے تری تصویر بھی کرے
ہے خبر انجمن آ ر ا ئی سے آگے کیا ہے
دیکھنا یہ ہے کہ تنہا ئی سے آ گے کیا ہے
خلق سے مل کر بھی اپنے آپ سے ملتا نہ ہو؛؛ آدمی تنہا ہو لیکن ا س قد ر تنہا نہ ہو
تم بھی چلے گئے تو ا ِ دھر کون آئے گا
تنہائی کے سوامرے گھر کون آئے گا
ان تمام کیفیتوں کے باوجود جاوید صبا اپنے دل کے عالم میں کسی کی شرکت
گوارانہیں کرتے۔وہ اپنے ہونے کی سند اپنے گھر سے لانے اور اپنے ہی اثر سے مہکنے کے قائل ہیں۔
ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر آپ نے خوش گواری کے ساتھ غیر جانب دارانہ انداز میں اچھی شاعری
سے محظوظ ہونا سیکھ لیا ہے تو آپ "عالم میرے دل کا "جیسے شعری مجموعے کے مطالعے کے بعد یہ
اعتراف کرنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ جاوید صبا نے کسی سے سند حاصل کرنے کی بجائے اپنے ہی
گھر سے اپنے ہونے کی سند لی ہے اور وہ اپنے اثر سے نہ صرف خود مہک رہے ہیں بلکہ گلستان ِ
غزل کو بھی رنگارنگ شاداب اور تروتازہ گلوں سے مہکارہے ہیں۔
یہ گھر وہ ہے جہاں
کج کلاہی کا سبب یہ ہے کہ گھر لوٹ کے ہم
اُس کے قدموں پہ جھکادیتے ہیں پیشانی کو
یہ اپنی ماں کے نام انتساب کے حوالے سے ایک ایسا شعر کہا گیا ہے جو ماں کے لیے ہی کہا جاسکتا ہے
ماں کسی کی بھی ہو،اور کسی طرح کی بھی ہو ،ماں تو ماں ہی ہوتی ہے ،جس کے قدموں میں جنت ہے
بھلا اس جنت سے الگ ہونا کسے گوارا ہے۔
آخر میں ہماری دُعا ہے کہ جاوید صبا کی یہ کج کلاہی قائم و دائم رہے آمین
(دسمبر 1989ء کو حلقہ ء عزم بہزاد میں پیش کیا گیا)

Post a Comment