برامپٹن (ادبی رپورٹ۔اسلم طاہر گورا) حلقہ اربابِ ذوق ٹورونٹو ماہ جولائی کا تنقیدی اجلاس برامپٹن لائبریری کے میٹنگ روم میں معروف شاعرہ نسیم سید کی صدارت میں ہوا جس میں عرفان ستار نے غزل اور ڈاکٹر بلند اقبال نے افسانہ پیش کیا۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی منٹو اکادمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر علی ثناء بخاری نے منٹو کی فن و شخصیت کے اجمالی پہلو پر ایک مضمون پڑھا۔ اجلاس کا آغاز نفیس غزنوی اور افتخار نسیم کے انتقالِ پُرملال پر ایک تعزیتی قرارداد سے ہوا جس میں دونوں ادبی شخصیات کی بے وقت موت پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ تعزیتی قرارداد کے بعد سیکرٹری حلقہ اربابِ ذوق طاہر اسلم گورا نے گزشتہ اجلاس کی کارروائی پیش کی جس پر حاظرین کی جانب سے کوئی نقطہ اعتراض اُٹھایا نہ گیا۔ گزشتہ اجلاس کی کارروائی کے بعد ڈاکٹر بلند اقبال کے افسانہ ’’ملاپ‘‘ پر گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے ڈاکٹر بخاری نے کہا کہ اُنہیں اِس افسانے میں افسانے سے زیادہ انداز اور انداز سے زیادہ زبان اچھی لگی ہے۔ منیر سامی نے ڈاکٹر بخاری کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اُنہیں تو اِس افسانے میں کہیں کہیں تلفظ کے مسائل بھی نظر آتے ہیں۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے ادبی حلقوں میں شاعری لکھنے کی روایت تو مضبوط ہے لیکن افسانے کا فن شاعری جیسا فروغ نہیں پا سکا۔ انہوں نے اُردو افسانہ نگاروں کو ہیرولڈ بلوم اور نارتھروپ فرائے کی کتابیں پڑھنے کی تلقین کی تاکہ وہ اپنے افسانوں میں افسانہ نگاری کے جدید طریقے اپنا سکیں۔ منیر سامی کا ڈاکٹر بلند اقبال کے افسانے کے حوالے سے یہ تاثر بھی تھا کہ مصنف یوں تو بہت روشن خیال ہیں مگر اِس افسانے میں وہ شعیہ سُنی بحث میں اُلجھ کر رہ گئے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر قاضی نے منیر سامی سے اختلاف کرتے ہوئے یہ کہہ کر بات کو آگے بڑھایا کہ وہ کسی بھی آرٹسٹ کی تخلیق پڑھتے ہوئے اُس کے شخصی نظریات کو بیچ میں لانا مناسب نہیں سمجھتے۔ تاہم اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ افسانہ علامتی اسلوب کا حامل ہوتے ہوئے ایک پیراڈوکس کا بھی شکار ہو گیا جس کے نتیجہ میں یہ انڈین بمقابلہ عربیہ ہو گیا۔ طاہر گورا نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ بنیادی طور پر یہ ایک علامتی افسانہ تھا جو بڑے کینوس کا متقاضی تھا مگر اختصار کی صورت میں اپنا اثر کھو بیٹھا۔ نزہت صدیقی کی رائے میں اِس افسانے کی علامت شیعہ سُنی کے تناظر میں محدودیت کا شکار ہو گئی ورنہ تو یہ موضوع گلوبل ہے۔ عرفان ستار کا کہنا تھا کہ یہ افسانہ بہت اچھا بنتے بنتے اچانک کُھلنا شروع ہو گیا جس سے وہ متفق نہیں۔ سعدیہ بخاری کے مطابق افسانے کا اختتام ایک دم عُجلت سے ہوا۔ فیصل عظیم نے رائے دی کہ اُنہیں افسانے کا اختصار تو پسند آیا مگر اختتام پسند نہیں آیا۔ اُن کے مطابق افسانے میں رومانی فضا کو بھی کم ہونا چاہئے تھا ۔ رشید ندیم نے کہا کہ اُنہیں یوں لگا کہ افسانہ قبائلی خداؤں کے تصور میں کہیں اُلجھ گیا ہے۔ آخر میں افسانے پر گفتگو کو سمیٹتے ہوئےِ صدرِ محفل نسیم سید نے کہا کہ یہ مجموعی طور پرایک فکرانگیز افسانہ ہے البتہ اِس پر ہونے والی گفتگو کے تمام پہلوؤں پر صاحبِ افسانہ نگار کو توجہ دینی چاہئے کیونکہ سبھی نے اہم معاملات کی نشاندہی کی ہے۔ عرفان ستار کی غزل پر ضامن جعفری نے گفتگو چھیڑتے ہوئے کہا کہ یوں تو اُنہوں نے اِس غزل کے سبھی اشعار کو پسند کیا ہے البتہ کچھ اشعار توجہ کے طالب بھی ہیں۔ انہوں نے غزل کے تیسرے شعر، ’’تیری صورت میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں میں بھی، غالباً تُو بھی مجھے ڈھونڈ رہا ہے مُجھ میں‘‘کے حوالے سے یہ نقطہ پیش کیا کہ اِس میں دو مختلف سمتیں ہیں۔ اِسی طرح انہوں نے چوہدویں شعر، ’’روشنی ایسے دھڑکتے تو نہ دیکھی تھی کبھی،، یہ جو رہ رہ کے جمکتا ہے یہ کیا ہے مجھ میں؟‘‘میں روشنی کے دھڑکنے کو اپنے شعور کے لئے قابلِ قبول استعارہ قرار نہ دیا۔ منیر سامی نے ضامن جعفری کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ روشنی کا دھڑکنا ایک مستعمل استعارہ ہے نیز انہوں نے غزل کے تیسرے شعر میں مختلف سمتوں کو شعر کا حسن قرار دیا۔ نزہت صدیقی نے ضامن جعفری کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ تیسرے شعر میں کیفیات کی دومختلف سمتیں تھوڑی غیر مانوس لگتی ہیں۔ عظمیٰ محمود نے غزل کے مطلع کو پسند کیا اور ساتویں شعر، ’’اک چبھن ہے کہ جو بے چین کیے رہتی ہے،، ایسا لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں‘‘ کو خصوصی پسندیدگی کی نظر سے دیکھا۔ فیصل عظیم نے غزل کے نویں شعر، ’’آئینہ اِس کی گواہی نہیں دیتا تو نہ دے،، وہ یہ کہتا ہے کوئی خاص ادا ہے مجھ میں‘‘ کو پرکھتے ہوئے کہا کہ اُنہیں شعر تو پسند آیا مگر اِس کا لہجہ نسائی ہے۔ ڈاکٹر طاہر قاضی نے دسویں شعر، ’’ مجھ میں آباد ہیں اک ساتھ عدم اور وجود،، ہست سے برسرِ پیکار فنا ہے مجھ میں‘‘ پر شہرہ آفاق نفسیات دان سگمنڈ فرائیڈ کو منطبق کرتے ہوئے کہا کہ یہ شعر تو فرائیڈ کی نفسیات دانی کے قریب ہے۔ ڈاکٹر طاہر قاضی کا مزید کہنا تھا کہ غزل میں ’’مجھ میں ، مجھ میں‘‘ کی تکرار اِس غزل کی انفرادیت کو برقرار رکھتی ہے۔ رشید ندیم کا کہنا تھا کہ پوری غزل میں کوئی شعر بھی بھرتی کا نہیں لگتا۔ ڈاکٹر بلند اقبال کے مطابق معنویت کے اعتبار سے پوری غزل ہی عمدہ غزل ہے۔ طاہر گورا نے بھی اِس غزل کو ایک بھرپور غزل قرار دیا۔ سعدیہ بخاری اور فاطمہ بخاری نے بھی غزل کو سراہا۔ آخر میں صدرِ مجلس محترمہ نسیم سید نے اِس غزل کو مجموعی طور ایک انتہائی عمدہ غزل قرار دیا اور انہوں نے منیر سامی کی رائے کے اکثر مندرجات سے اظہارِ اتفاق کیا۔ اِن تخلیقات پر تنقیدی گفتگو کے بعد منٹو اکادمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر علی ثناء بخاری اور ٹورونٹو میں منٹو اکادمی کی کوآرڈینیٹر سعدیہ بخاری نے حلقہ اربابِ ذوق کے سیکرٹری طاہر اسلم گورا کو ٹورونٹو میں ہر سال ’’منٹو ڈے‘‘ کے حوالے سے ایک تقریب منعقد کرنے کی ذمہ داری سونپی ۔ یوں اَب ہر سال ٹورونٹو میں ’’منٹو ڈے‘‘ منایا جائے گا۔ آخر میں مہمانِ خصوصی ڈاکٹر علی ثناء بخاری نے منٹو کے فن و شخصیت کے حوالے سے ایک اجمالی جائزے پر مشتمل مختصر مضمون پیش کیا جسے حاظرین نے خوب سراہا۔

Post a Comment