,,سرسوں کے پھول،، غلا م فرید کاٹھیہ کا دوسرا افسانوی مجموعہ ہے۔غلام فرید کاٹھیہ کا تعلق ساھیوال کے ایک زمیندار گھرانے سے ہے۔ اپنی کلاس کے رویوں کے برعکس احساس محرومی  کے شکار طبقے کے مسائل کو انہوں نے بڑے قریب سے دیکھا اور پرکھا ہے۔
دیہی علاقے میں رہنے والے افراد کے مصائب کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔ گاؤں کی ثقافت نے ان کے تخلیقی جوہر ابھار نے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ایک کہانی کار ہونے کے ناطے غلام فرید کاٹھیہ کا کہنا ہے کہ ”میں زمیندار سیاست کار ہوں فقط ایک سیاسی کارکن۔ لکھنے کا شوق بچپن سے ہو گیا اور لکھتا رہا۔ چھپنے کے میدان میں زیادہ تر اجنبی رہا، 
پریم چند کے بعد احمد ندیم قاسمی کے دھرتی پسند ہونے کے تسلسل میں غلام فرید کاٹھیہ کے افسانوی مجموعے،،سرسوں کے پھولِِ،،کا مطالعہ کرتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ہاں پریم چند، ہاجرہ مسرور، قراہ العین حیدر اور احمد ندیم قاسمی کے فن اور اسلوب کے لئے علیحٰدہ علیحٰدہ وجوہات کی بنا پر زور دار چاہت موجود ہے۔
غلام فرید کاٹھیہ کا افسانہ حقیقت نگاری اور دیہی پس منظر میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ اپنی دھرتی سے پیار ان کے خمیر میں شامل ہے
بنیادی طور پر غلام فرید کاٹھیہ دیہی زندگی کے نشیب و فراز سے بخوبی واقف ہونے کی بنا پر ”سرسوں کے پھول“ کے کرداروں کی نفسیات کی جزئیات میں گم ہو جاتے ہیں۔گہرا مشاہدہ ان کی کہانیوں کا خاصہ ہے۔
سرسوں کے پھول،، جو مجموعے کا عنوان بھی ہے ایک بھرپور اور اس مجموعے کی سب سے جاندار کہانی ہے جس میں زمین سے پھوٹی ہوئی سرسوں تکمیل کا احساس دلاتی محسوس ہوتی ہے،وہیں زمین کے بارآور ہونے کا احساس کہانی کے مرکزی کردار ثمینہ میں احساسِ محرومی کو مزید اجا گر کر جاتا ہے۔سفیر جو کہانی کا دوسرا اہم کردار ہے وہ ثمینہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے,,ثمینہ تمہیں یاد ہے آج سے کچھ سال پہلے جب یونیورسٹی کی گود میں پھیلے پیلی سرسوں کے وسیع کھیتوں میں پہنچنے پر تم نے ایک خواہش کا اظہارکیا تھا۔وہ جو کئی دنوں بعد مجھ پر آشکار ہوئی تھی،،
ثمینہ متوجہ رہی منہ ہی منہ میں بولی،، جی  اچھی طرح یاد ہے اور میں نے اس لئے جلدی سے آپ کے ساتھ شادی بھی کر لی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔۔۔۔اور میری وہ خواہش آج تک ادھوری ہے آج تک پوری نہیں ہو سکی۔سفیر بڑی محبت سے ثمینہ کی پیش رفت سن رہا تھا،جھجکتے ہوئے بولا،، اور۔۔۔۔ شاید آپ کی یہ خواہچ کبھی پوری نہ ہو سکے،،
کہانیوں کا موضوعاتی جائزہ لیتے ہوئے ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ ”غلام فرید کاٹھیہ کے ہاں زندگی کے متنوع اشکال موجود ہیں۔ وہ کہانی کہتا ہی نہیں، کہانی میں سانس لیتا ہے۔ اس کی کہانیاں جیتی جاگتی زندگی پیش کرتی ہیں۔
اس مجموعہ میں تین کہانیاں،ویرانے کا پھول، میں انجینیئر بنوں گا،اور پتھر کی گرفت،،  کا پس منظر سن2005میں آنے والا وہ زلزلہ ہے جس میں ہزاروں افراد لقمہِ اجل بن گیئے تھے۔ان کہانیوں کی تکنیکی بنت  اوران ان کہی کہانیوں میں اپنے مشاہدے اور حساسیت کے بیان کے ذریعے اس طرح بیان کیا ہے کہ اس سے وہ ایسے کہانی کار کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں جو اپنے گہرے مشاہدے کو کہانی میں بدلنے پرقادر ہیں۔
ان کے دیباچہ نگار حفیظ خان لکھتے ہیں:
،،میاں یارا،، ان سب کہانیوں سے مختلف کہانی ہے۔اسے پڑھتے ہوئے مجھے اپنی کہانی،، جاتی رت کی شام،، یاد آگئی کہ جس میں معاشرے کے دھتکارے ہوئے کردار،،اپاپیپ،، کو موضوع بنایا گیا تھا۔،،میاں یارا بھی ان ذلتوں کے مارے ہوئے  لوگوں میں سے ایک ہے جو خوداری کے نام پر اپنا تمسخر آپ اڑاتا ہے،،غلام فرید کاٹھیہ کی یہ کہانی بلاشبہ ایسے ہی تاثر کی حامل ہے، لیکن بعض الفاظ کی تکرار سے جو تاثر بنانے کی کوشش کی گئی ہے وہ اس کہانی کے مجموعی تاثر کو خراب کرتی ہے۔
 منشا یاد مرحوم نے ان کی پہلی کتاب پر لکھا  تھاکہ غلام فرید کاٹھیہ کی اولین کہانیاں پڑھتے ہوئے کسی کچے پن کا احساس نہیں ہوتا۔ ان کے فکر اور اظہار و بیان میں پختگی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے وہ ایک عرصے سے کہانیاں لکھ رہے ہوں۔“
منشا یاد ذاتی طور پر غلام فرید کاٹھیہ کو نہ جانتے ہوں لیکن ان کے ایک واقف کار کی حیثیت سے اگر میں یہ کہوں کہ واقعی ان کی کہانی نویسی تین دھائیوں پر پھیلی ہوئی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ کہانی لکھنا ان کا اوڑھنا بچھونا نہیں ہے کیوں کہ ان کی شخصیت میں زمینداری اور سیاست پہلے اور کہانی کاری بعد میں ہے۔
میں غلام فرید کاٹھیہ سے یہ ضرور کہوں گا کہ مشاہدہ اور مطالعہ آپ کا بہت وسیع ہے۔ سیاست کاری سے وقت نکال کر سرسوں کے پھول جیسے افسانے ضرور تخلیق کریں کہیں ایسا نہ ہوکہ ا ٓپ کے اندر کے کہانی کار کی موت واقع ہو جائے۔

أ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رضاالحق صدیقی

Post a Comment