رضاالحق صدیقی

دامنِ صد چاک کے شاعر
          اکرم کنجاہی کا کہنا ہے کہ ان کا خمیر چناب کی رومان پرور مٹی سے اٹھا ہے۔ ان کی شاعری ان کی اسی بات کا پرتو نظر آتی ہے۔
     حسن بذات ِخود ایک صداقت ہے اور صداقت بذاتِ خود ایک حسن ہے۔دونوں کے ملاپ سے عشق کا خمیر اٹھا ہے۔
     دامنِ صد چاک، کا ایک ایک لفظ،ایک ایک مصرع گواہ ہے کہ شاعر نے بے پناہ ریاض اور تخلیقِ فن کے معاملے میں بے حد ذمہ داری اور دیانت داری سے کام لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکرم کنجاہی کی ہر نظم اور ہر غزل ہمیں تکمیل کا احساس دلاتی ہے۔یقیناََ فن میں تکمیل کا وجود ہوتا ہی نہیں،فن کائنات کی طرح مسلسل بدلنے اور بڑہنے کا نام ہے۔
                    جذبات اور خلوص،محبت سبھی ہیں سرد
                    سورج پہ گھر بناوں گا  اک روز جا کہ میں 
     چنانچہ تکمیل کے احساس سے میری مراد یہ ہے کہ وہ جو کسی فن پارے کے مطالعے کے بعد ایک آسودگی اور طنانیت کا احساس ہوتا ہے،اکرم کنجاہی کی نظموں اور غزلوں کی بنیادی خوبی ہے،نہ کہیں اظہار و ابلاغ میں تشنگی محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی زبان و بیان میں۔ایسی نک سک سے درست شاعری کے معاملے میں یہ خدشہ عموماََ درپیش ہوتا ہے کہ شاعر ہیت کے حسن و آرائش کی طرف زیادہ متوجہ ہونے کے سبب سے موضوع کے ساتھ کماحقہ انصاف نہ کر پایا ہو گا، مگرباکرم کنجاہی کی شاعری نے اس خدشیکی نفی کر ڈالی ہے۔ چنانچہ یہ وہ نظمیں اور غزلیں ہیں جو اندر باہر سے خوبصورت ہیں۔ان کا خارجی حسن ان کے داخلی حسن کی آسودگی بخش تفہیم کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے، اور ان کے داخلی حسن پر خارج کا لباس جچتا  اور پھبتا ہے یوں اکرم کنجاہی کی شاعری نے موضوع اور ہیت  کی تفریق کا  جھگڑا ہی ختم کر دیا ہے کیونکہ اس شاعری میں سب کچھ یکجان ہے اوریہ شاعری ایک تخلیقی اکائی بن کر ہمارے سامنے آتی ہے۔
     اکرم کنجاہی ان شاعروں میں سے نہیں ہے جن کا عمر بھر خود اپنے آپ سے  ہی تعارف  مکمل نہیں ہوتا۔شاعری یقیناََ  شاعر کی ذات کا اظہار ہوتی ہے۔مگر شاعر جب تک اپنی ذات کی مکمل شناسائی حاصل نہیں کر پاتا، وہ ابلاغ کے معاملے میں مفلوج رہتا ہے، اور باقی زندگی اس مفلوج پن کے جواز ڈھونڈنے میں گذار دیتا ہے۔
     اکرم کنجاہی نے سب سے پہلے اپنی ذات کو جانچا،پرکھا اور برتا ہے۔ پھر جب اسے اپنی پہچان کی روشنی میسر آئی ہے،تو اس نے اس روشنی میں زندگی کو جانچا،پرکھا اور برتا ہے اور یوں سنیاس اختیار کرنے کی بجایئے زندگی اور اس کے مسائل اور ان مسائل کے مضمرات اور اسرار تک رسائی حاصل کی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اجالے  کا،زندگی کا، زندگی کے اثبات کا،انسان کے ارتقا کا شاعر ہے۔
     میں نے اکرم کنجاہی کو اس لئے اثبات کا شاعر کہا ہے کہ اثبات کی شاعری یقین و اعتماد کے بغیر مشکل بلکہ نا ممکن ہے،یقین انسان کی قوتِ خیر و عدل کی آخری فتح پر اور اعتماد اس حقیقت پر کہ انسان کا مقدر آخر کار امن،محبت اور روحانی و مادی آسودگی ہے۔ اکرم کنجاہی کے ہاں یقین و اعتماد کی اس توانائی کی افراط ہے۔
   
ادب کے بعض عناصر کو یہ  ضد ہوتی ہے کہ کسی شاعر کے فن کو کسی قسم کے سیاسی اور سماجی تناظر میں رکھ کر نہیں دیکھنا چاہیئے۔ اگر ہم سیاسی اور سماجی تناظر کو نظرانداز کر کے کسی شاعر کا جائزہ لین گے تو یوں سمجھئے کہ ہم اس اس زندگی اور اس ماحول کو نظر انداز کر رہے ہیں جو شاعر کے کلام سے منعکس ہوا ہے،اور اسے منعکس ہونا چاہیئے کہ شاعر کے دل و دماغ اگر حساس نہیں ہوں گے تو وہ شعر ہی کیوں کہے گا،ایسا ہمارا ماننا ہے۔
     سیاست  اور معاشرت کا تناظر کسی فن پارے کو داغدار نہیں بناتا بلکہ اسے روشن کرتا ہے اور اکرم کنجاہی کے کلام کو سیاسی اور سماجی تناظر میں رکھ کر دیکھے بغیر ہم ان کے حسنِ کلام سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہو سکتے  اس لئے کہ یہ وہ شاعر ہے جس نے اپنی ذات کے آئینے میں پوری طرح زندگی کا مشاہدہ کیا ہے اور اگر اس زندگی میں سے سیاست اور معاشرت کو خارج کر دیا جائے  تو تہذیب اور کلچر کے چہرے بھی اجنبی اجنبی سے معلوم ہونے لگتے ہیں،
اب تو یہ خوہشات کا ساماں اٹھا کے پھینک
اب بوجھ اپنی ذات پہ اپنا ہوا  وجود
     اکرم کنجاہی مزاجاََ ایک نرم گفتار شاعر ہیں مگر اس نرمی میں متاثر کرنے کی جو قوت ہے وہ انہیں کتنے ہی بلند بانگ شاعروں سے اونچا کر دیتی ہے،یہ نرمی صرف ان شاعروں کے ہاں ہوتی ہے جو اپنی ذات کے علاوہ گردو پیش کے حالات و مسائل کو پوری طرح سمجھ چکے ہوتے ہیں،ایسے شاعر کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے کیا کہنا ہے، کس زاوئے سے کہنا ہے اور کس کہجے میں کہنا ہے یہی وجہ ہے کہ زندگی کی نئی معنویتوں کا ادراک رکھنے کے باوجود  اور جدید ہیت کا ایک بلیغ ترجمان ہونے کے باوجود اکرم کنجاہی اظہار کے معاملے میں اتنا سادہ ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ  انہوں نے سامنے کی بات کہہ دی ہو مگر ذرا سا رکئے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سادگی کتنی تہہ دار ہے اور اس سنجیدگی میں کتنی شوخی ہے۔پھر الفاظ کے اندرونی اور بیرونی آہنگ کا رمز شناس ہونے کی وجہ سے اکرم کنجاہی شعر کی صورت میں دل و دماغ پر وار کرتا ہے  جو بڑا کٹیلا ہوتا ہے اور یہی کٹیلا پن ان کے لہجے کی پہچان اور انفرادیت ہے۔
ہمیشہ پا بہ گِل رہتے ہیں ہجرت کر نہیں سکتے
پرندے اڑ بھی جائیں  تو شجر رویا نہیں کرتے

Post a Comment