دل ترے غم کو سہہ گیا کیسے 
آگ میں پھول رہ گیا کیسے
اے مری آنکھ کے سُبک چشمے 
تُو کناروں سے بہہ گیا کیسے
کعبہ دل کا تھا محترم تجھ کو 
تیرے ہاتھوں سے ڈھ گیا کیسے
قصہ گو ، داستاں محبت کی 
اُس کی مجلس میں کہہ گیا کیسے
دن کے نیزے کا سر پھرا سورج 
شب کے تیروں کی تہہ گیا کیسے
مَیں ،کہ شیعہ تھا حُسنِ اکبر کا 
پھر زیارت سے رہ گیا کیسے

علی اکبر ناطق

Post a Comment