سفاکی کا زہر انڈھیلا جاتا ہے
انسانوں کے خون سے کھیلا جاتا ہے
اپنی سوچ سے کام نہ لینے والوں کو
پستی میں کچھ اور دھکیلا جاتا ہے
لوگ زرا سی ہمدردی کر جاتے ہیں
کرب تو اپنی ذات پہ جھیلا جاتا ہے 
اپنی منزل پر کب نظریں ان کی ہیں
چل پڑتے ہیں جدھر کو ریلا جاتا ہے
شہروں والی خوب ترقی کرتے ہیں
کچلا اس میں جنگل بیلہ جاتا ہے
دنیا بھر میں خوب تماشے ہوتے ہیں
دیکھنے والا دیکھ کے میلہ جاتا ہے

Post a Comment