قدرت کی طرف سے ہمیں انعام کے ہوتے
کچھ یاد نہیں ہم کو ترے نام کے ہوتے 
کیوں سارے ثمر غیر کا ہوتے ہیں مقدر
یاں اپنی زمیں اپنے دروبام کے ہوتے
جو دل پہ زمانے کا ہر اک درد اٹھا لیں 
آلام سے بیکل رہے آرام کے ہوتے
جو میرے لئے اہل محبت نے سجائی 
کچھ لمحے ترے نام بھی اس شام کے ہوتے

دوری کا تصور کسے ہوتا ہے گوارا
یہ فیصلے ایسے ہیں کہ دل تھام کے ہوتے
کچھ اور بھی لفظوں کو معانی میں پروتی 
کچھ شعر غزل میں اگر الہام کے ہوتے
صبیحہ صباؔ

Post a Comment