جدا کیسے کرے گا موڑ کوئی
محبت کا کہاں ہے توڑ کوئی
دمک اُٹھے ہمارا شیشۂ دل
تُو اِس مِیں عکس ایسا چھوڑ کوئی
میسر کیوں نہیں ہے چیَن ، جانے
لگی ہے کیوں نجانے دوڑ کوئی ؟
عُدو بھی دے خدایا , آن والا
بھلا کم ظرف سے کیا جوڑ کوئی
محبت میں سیاستدان مت بن
تُو وعدہ وصل کا مت توڑ کوئی
ہوں بیٹھے رفتگاں ، دالان میں سب
وہ لمحہ ، وقت کا ، پِھر موڑ ، کوئی
بہت۔ مضبوط ہو جائے گا ، خود بھی
تُو ٹُوٹا دل کسی کا جوڑ کوئی
ترا دامن بھی بھر جائے گا راجا
خدا کے ہاں نہیں ہے تھوڑ کوئی
ایک تبصرہ شائع کریں