طاق میں اک چراغ جلتا ہے
درد تنہائی میں ہی پلتا ہے 
رات کی بے کراں اُداسی میں 
ایک آہٹ پہ دل دھڑکتا ہے
کاش یہ علم تمہیں ہوسکتا
دُکھ کا دریا ہی کیوں بکھرتا ہے
کیسے برسات کے مہینوں میں
دل پہ ساون یونہی گرجتا ہے
چاند برکھا کی بھیگی راتوں میں
چھپ کے بادل میں پھر اُجلتا ہے
رات کٹتی نہیں ہے کیوں انور
غم کا دن کس طرح نکلتا ہے
انور زاہدی

Post a Comment