رپورٹ:رابعہ الرَ بّا ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،
مو سم بہا ر شروع ہو چکا تھا ۔ مگر سر دی کی کچھ لہر یں ملیریا میں لگنے والی سردی کی طر ح شہر میں دور رہی تھیں۔ کچھ جسم میں سنسنا ہٹ بن کر دوڑ جاتی تو کچھ ہمیں یا د دلاتی کہ نہیں یہ تو کو ئی خیالی سنسناہٹ ہو گی جو مو سم کا مزہ نہیں لینے دے رہیں۔ موسم بھی کیا ظالم شے ہے حساس انسانو ں کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا
ہے
 ۔ 
یہ اتو ار کا دن تھا صبح سے ہی دھوپ اور سرد ہو ئیں آنکھ مچو لی کھیل رہی تھیں۔ دونو ں نے ہا ر نہیں ما نی اور ان کی من ما نی میں زندگی نے بھی مسکرانے سے انکا ر نہیں کیا ۔ اور شہر ہو شہر لا ہور، زندہ دلان کا شہر ، باغو ں کا شہر ، پھولوں اور خوشبو کا شہر،گورنمنٹ کالج کاشہر تو کس کی مجال ہے کہ کو ئی کرتا انکا ر ۔ الحمرا میں جشن بہا راں تھا ، ایوان اقبا ل میں حلقہ اربا ب ذوق کا اجلا س تھا، تو ایک اجلاس پا ک ٹی ہا ئوس میں منعقد تھا،کہیں جشن بہا

را ں کا مشاعرہ تھا ، کہیں فیض امن میلہ،یو ایم ٹی کی ادبی بیٹھک تو کاسمو پو لیٹن کلب میںکو ئی تقریب پذیرائی، انہی ادبی میلو ں میں ایک میلا سن فورٹ ہو ٹل لاہو ر کی دوسری منزل پر بھی سجا ہواتھا ۔ جہا ں ادبی بہا ر کے ساتھ اولڈ راوینز کی بہا ر دکھا ئی دے رہی تھی۔ کیو نکہ اس بہا ر کا انعقا د اولڈ راوینئز ایسوسی ایشن لا ہو ر کی جا نب سے کیا گیا تھا ۔ سو یہا ں را وی کیو ں نا بہتا ۔ جتنے راوینز بیٹھے ہو ئے تھے وہ آج بھی راوین ہی لگتے تھے ، عمر ان پہ اپنے اثرات چھو ڑنے میں نا کا م نظر آتی تھی ۔ بس ذرا سب کے جسما نی زاویے بد ل گئے تھے۔ مجھے محسو س ہوتا ہے کہ راوین ہونا ایک کیفیت کا نا م ہے جو طا ری ہو جا ئے تو طاری اور جا ری ر ہتی ہے۔

سن فورٹ کی بھی اگرتاریخ اٹھا ئی جاتی تو اس میں بھی کو ئی باب ایسا نہیں ہو گا جس میں درج ہو کہ اس کی زمین پہ کتنے راوینئز اکھٹے ہو ئے ہوںگے۔وہ آج خو د اس کیف میں جھو م گیا ہو گا ۔ خود پہ نا زاں ہو گا اور نا ز کا سہر ا جا تا ہے ممتا زشیخ کے سر ، ’’ اک سہر ے پہ کئی سہر ے سجا لیتے ہیں لو گ،، مگر یہ ہمت بھی کو ئی کو ئی کر تا ہے ، اور یہ نصیب بھی کسی کسی کو ملتاہے، ممتا ز شیخ نے پہلے اپنا سہرا تو سجا یا ہی ہو گا ، مگر اس کے بعد ’’لو ح ،، کو نکالنے کا ، پھر اس کی کامیا ب اشاعت کا ، کامیاب پریزنٹیش کا ، اور کامیاب سر کو لیشن کا، اور پھر ہر سال ایک بھر پو ر تقر یب کا ، اور یہ اس سلسلے کی چوتھی تقر یب تھی ۔ اور چوتھا انداز تھا ۔ 
ہال بھرا ہو تھا ۔ اور بقو ل ماہر قانون اور قابلِ احترام پاکستانی جناب ایس ایم ظفر جو اس تقریب کی صدارت بھی فرما رہے تھے کہ اس ہال میں سب کے سب اسیرانِ ادب ہی تشریف فرما ہیں اور اسیرانِ ادب کا لفظ سہ ماہی"لوح" کے 
ٹائٹل کی پیشانی پر بھی کندہ ہے، 

میزبانی کے فرائض کا آغاز اولڈ راوئینزایسوسی ایشن لاہور کے جنرل سیکرٹری شہباز شیخ نے کیا اور اس تقریب کے حوالے سے مختصر گفتگو کے بعد تقریب چلانے کی ذمے داری معروف شاعر اور دانشور ڈاکٹر ابرار احمد کو سونپ دی۔ "ادبِ لطیف" کی سدا بہارایڈیٹر محترمہ صدیقہ بیگم تقریب کی مہمانِ خصوصی تھیں ۔محترمہ صدیقہ بیگم کے دائیں طرف جناب ممتاز شیخ براجمان تھے جن کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا کہ تقریب میں لاہور کے تمام نمائندہ شاعر، ادیب، افسانہ نگار اور نقاد تشریف فرما تھے۔ غالباََ یہ اس روز کی سب سے کامیاب اور بھرپور تقریب تھی۔ راوئینز اور"لوح" کے پروانوں کا ہجوم سا اُمڈ آیا تھا جس میں امجد اسلام امد، ڈاکٹر اختر شما ر، ڈاکٹر سعادت سعید ، ڈاکٹر ضیا الحسن ، ڈاکٹر نجیب اجمل، ظفر سپل ، سعود عثما نی،حسین مجر وح ، ڈاکٹر نیازی ، انجم قریشی ، امجد طفیل ، اقتداد جاوید ، ڈاکٹر ابرار احمد ، سجا د بلو چ ، عبرین صلاح الدین ، مظہر سلیم مجوکہ ،وقاص عزیز ، ر خشند ہ نو ید ، قمر رضا شہرا د ، ڈاکٹر خالد ہ انو ر ، اورنگ زیب نیازی ، یو نس خان ، سلمی اعوان، نیلم احمد بشیر ، حمید ہ شاہین ، انجم قریشی، وحید رضا بھٹی ، سرفراز احمد، نا ز بٹ ، آسنا تھ کنو ل ،باقی احمد پوری، ڈاکٹر ساجد علی، ڈاکٹر جو ا ز جعفری، محمد ندیم بھابھہ، امجد طفیل ، شائستہ نزہت، وسیم عباس ،ہا یٓکورٹ کے ریٹایرڈ ججز، بیوروکریٹس ،وکلاہ، اور میرے سمیت بہت سے لو گ شامل تھے۔ جن کے نا م شامل نہیں کر سکی ، وہ میر ی کم علمی ہے۔ اس موقعہ پر ممتاز شیخ صاحب کے بچپن یعنی گورنمنٹ کالج کے دوست بھی کثیر تعداد میں موجود تھے جن کا تعلق آج زندگی کے مختلف شعبوں میں امتیازی حیثیت رکھنے سے ھے جن میں عسکری اداروں کے اعلی عہدے دار ،پولیس کے زمے دارعہدوں پر متمکن حضرات ، ڈاکٹرز ، سول سروس ، بینکار ،بزنیس مین شامل تھے-
آدبا ،افسانہ نگاروں اور شعراہ کی اکثریت نے اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کیا اور وہ بھی مفید - یہ دن تھا راز فاش ہو نے کا ، ایک کے بعد ایک بھید کھل رہا تھا ، کچھ سے تو میں بھی پر دہ نہیں اٹھا نے والی کہ ہر راز کے فاش ہو نے کا بھی وقت ہو تا ہے ۔ اسے اس کی عمر دینی چاہئے ۔ انجم اعظم قریشی نے بتایا کہ ’’ لو ح ،، کا نا م انہو ں نے تجو یز کیا تھا اور وہ آج تک اس پر اتراتی ہیں اور اس کی مٹھاس محسوس کرتی ھیں جس کی تائید ممتازشیخ صاحب نے بھی کی ، اک راز ممتا ز شیخ کی ز با ن سے بھی سماعتوں تک گزرا، آہ کیا یاد آگیا
’’ وقت کر تا ہے پر ور ش بر سوں،،
یہ نہیں معلو م ممتاز صا حب نے کس عشر ے کی با ت کی ، مگر جگہ تھی گورنمنٹ کا لج لا ہو ر اور ’’راوی،، کی ادارت کے"ہما "کا موقع تھا مگر ممتاز شیخ صاحب بوجوہ راوی کے ’’ ایڈیٹر،، منتخب نہ کیے جا سکے، بس یہ درد خواب بن کر نجانے کب سے تعبیر کی تلا ش میں کتنی وحشتوں کا سفر تنہا کر تا رہا اور آخر اس خواب نے’’ لو ح ،، کی صورت تعبیر پا لی۔ مجھے عطا الحق قاسمی کی ایک با ت یا د آ گئی ’’ آئیڈیل ملتا ضر ور ہے مگر بس وقت پہ نہیں ملتا،،تب ممتا ز صاحب نے دل میں ٹھا نی تھی کہ وہ ’’راوی،،کو آئیڈیل بناتے ہوئے "راوی " جیسا ہی مقتدرپر چہ نکا لیں گےانہوں نے مذید کہا کہ اگر انہیں "راوی " کے نام سے پرچہ نکالنے کی اجازت مل سکتی تو وہ "لوح" کا نام "راوی ثانی" رکھتے۔ اب انہو ں نے ثابت کر دکھایا کہ دیکھے جانے والے خواب ضرور پو رے ہو کر رہتے ہیں۔

بہت سی تجا ویز بھی پیش کی گئیں، بہت سے مشو رے دئیے گئے۔ تعریف بھی کی گئی ، تنفید بھی نے خاصی جگہ پا ئی ،اس موقع پر ممتاز شیخ صاحب نے کہا وہ اس اجمتاع میں ہر قسم کی تنقید کا خیر مقدم کریں گے اور اس کی روشنی میں "لوح" کو مذید بہتر بنائیں گے۔اس موقع پر میری معلومات میں بھی بہت اضافہ ہوا اور ایس ایم ظفر صاحب کی یہ بات سن کر اچھا لگا کہ پاکستا ن بننے سے قبل اس سر زمین ِ بر صغیر پہ چا ر ہز ار سے زائد پر چے نکلتے تھے، جس میں سے دو ہزار صرف لاہو ر سے ہی نکلا کر تے تھے۔تو گویا لا ہو ر کو ’’ ادبی رسائل و جرائد ،، کا شہر بھی کہہ سکتے ہیں ۔ وہ زما نہ چشم تصور میںگردش کرنے لگا۔ 
خلیل جبرا ن کی با ت ہو ئی، ابن خیام کی بات ہو ئی ، دوستو فسکی کو یا د کیا تو ،کو لمبس کو یا د کیا ، تو پطر س بخاری تک کا ذکر چھڑا ، سو ند ھی ٹرانسلیشن سوسائیٹی (گو ر نمنٹ کا لج لاہو ر) کا قصہ چھڑا ، نجا نے کتنی داستانیں ابھی با قی تھیں ، نجا نے کتنے قصے ابھی چھڑنے تھے، مگر وقت کی قید نے رسمی کا روائیو ں کی طر ف مو ڑ دیا ۔ 
ان اختتامی ر سمی کا روائیوں کے بعد جہا ں پْر تکلف چائے کا دور چلا ، وہا ں نئی تہذیب کے نئے ر نگ نے بھی ر نگ بکھیرے، یعنی سیلفی ٹا ئم جس میں بنا عمر و رنگ ونسل محمو د و ایا ز ایک ہی صف میں کھڑے نظر آئے ۔ اور یہ ہر دور کا حسن ہو تا ہے کہ اس کو اس کی طر ح ہی گزارا جا ئے تو لطف ہے۔کیو نکہ زند گی کا کو ئی پل لو ٹ کے نہیں آتا ۔ اور یہ پل بھی آج کے بعد سے یا د بن گیا ہے ۔ جس کو ہم خو ش نصیبو ں نے کیمر وں اور یاداشتوں میں قید کر لیا ہے ۔ کل سے یہ ہما ری یا دوں میں مسکرائے گا۔

Post a Comment