احمد سہیل
جب لڑکی خاموش ہو جاتی ہے
تو خواب تعبیر سے جدا ہو جاتے ہیں
جب لڑکی مسکراتی ہے
تو ھم سے آزادی چھین کی جاتی ہے
ھم دنیا میں عدت کے دن گزار ر ہے ہیں
مجھے موت دے دو
کہ میں اپنی زندگی میں واپس جانا چاہتا ہوں
موت ایک معمہ ہے
سایوں کے پیچھے
وہ اپنی تعریف سن کر رو دیتی ہے
الجھے ہوئے اندھیرں میں
زندگی مجرم بنے کھڑی ہے
تم خزاں سے پہلے آجانا
زندگی بیچنے والا سپاہی موت سینے پر سجاتا ہے
موسموں کے بدل جانے سے
پیڑوں سے پتے جدا ہو جاتے ہیں
مگر جدائی کا کوئی موسم نہیں ہوتا
جتنی دیر میں یہ نظم پوری ہو
تم لوٹ آنا
جاڈوں سے پہلے تم مجھے آزاد کردو
یہ اس شہر کی کہانی ہے
جب شہر سر شام سوگیا تھا

Post a Comment