ارشد شاہین
مری مجبوریوں کو جان لیتا
تو کیا وہ بات میری مان لیتا
سرِ دشتِ طلب رکتا تو کیسے
بھلا کس کس کا میں احسان لیتا
پلٹ کر سوچتا ہوں خاکِ دنیا
بچی تھی جو اُسے بھی چھان لیتا
بتا دنیا ! تری اوقات کیا تھی
تجھے پانے کی گر میں ٹھان لیتا
تری آواز تو آتی کہیں سے
میں چل پڑتا ، نہ کچھ سامان لیتا
ذرا سی چوک ہو جاتی تو دشمن
مرا خنجر مجھی پر تان لیتا
اگر احساس کچھ ہوتا دلوں میں
تو جان انسان کی انسان لیتا
وفا پر اُس کی ،شک ہوتا تو اُس سے
کوئی وعدہ ، کوئی پیمان لیتا
اکیلے میں اگر ملتا وہ مجھ سے
تو ممکن ہے مجھے پہچان لیتا
مقدر یاوری کرتا تو ارشد
کوئی مجھ کو نہ یوں آسان لیتا

2 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں