واصف سجاد
مٹی کی مہک بلا رہی ہے
کس دیس کی یاد آ رہی ہے
اچھا تھا بہت سلوک اپنا 
دنیا ہمیں کیوں بھلا رہی ہے 
کیوں جانے چراغ گاؤں والے 
شہروں کی ہوا بجھا رہی ہے
کیسی ہے فضائے بے یقینی 
جو دل کے افق پہ چھا رہی ہے
میں دیکھ رہا ہوں اپنا انجام
پتوں کو ہوا اڑا رہی ہے

Post a Comment