بروک سائیڈ بوٹینیکل پارک


قدرت کے مناظر مجھے بہت متاثر کرتے ہیں، میری لینڈ، ورجینیا اور واشنگٹن قدرتی سرسبز اور خوبصورتی سے مالا مال ہیں۔ یہ علاقے سیاہ فام رہائشیوں کے ہیں جبکہ یہاں میکسیکنز بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ امریکہ میں ورجینا نام کی دو ریاستیں ہیں۔ ایک ساؤتھ اور دوسری نارتھ۔ ایک میں غالب اکثریت سیاہ فاموں کی ہے اور دوسری میں گورے۔ میری لینڈ میں سیاہ فام زیادہ نظر آتے ہیں، یہاں مساجد تو نہیں ہیں لیکن کیمونٹی سینٹر کے ایک ہال میں جمعہ کی نماز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جہاں نماز کے لئے آنے والوں کی زیادہ تعداد سیاہ فام باشندوں کی ہوتی ہے۔
میں جب سے آیا ہوں، جہاں بھی گیا، اکیلا نہیں تھا۔ میرے ساتھ میری نصف بہتر چل رہی ہوتی تھیں، ہم دونوں کے درمیان میری جان عنایہ ہوتی تھی، ہمارے آگے دنیا کا خوبصورت ترین جوڑا یعنی عدیل اور رابعہ چل رہے ہوتے تھے۔ عدیل اور رابعہ ہمارے ساتھ بہت فرینک ہیں لیکن ہماری موجودگی میں یہاں کے ماحول میں بھی ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر نہیں چل رہے تھے حالانکہ ان کے درمیان جو رشتہ تھا وہ ان کی مسکراہٹوں اور ایک دوسرے کی قربت کے احساس سے پھولوں پر شبنم کے قطروں کی مانند ظاہر ہورہا تھا۔ عدیل نیلی پولو ٹی شرٹ اور جینز میں مجھے میری لینڈ کا سب سے وجیہہ لڑکا لگ رہا تھا جب کہ رابعہ سرخ مرچ جیسی رنگ کے کرتے میں سب سے پیاری لڑکی لگ رہی تھی۔
اس وقت ہم بروک سائیڈ بوٹینیکل پارک جارہے تھے، اس پارک میں درختوں کے خوبصورت پتوں کے ساتھ ساتھ پھولوں کی مسرور کن فضا انسان کو خود میں سمولیتی ہے۔ رنگ برنگے پھول جو برصغیر کی فضا میں نظر نہیں آتے اور اس سے بڑھ کر یہاں درختوں کے پتوں کے رنگ ہیں۔ ستمبر کے بعد جب خزاں اپنا رنگ دکھانے لگتی ہے تو یہاں درخت خوبصورتی کا نیا راگ الاپتے ہیں۔ موسمِ بہار کے بعد خزاں آنے سے پہلے دور دور تک خوبصورتی اپنا رنگ دکھانے لگتی ہے۔
پارک کے درمیان پگڈنڈی پر چلتے چلتے عدیل نے پیچھے مڑ کر بتایا کہ منٹیگمری کاؤنٹی میں موجود یہ پارک 50 ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں، امریکہ میں یہ ایوارڈ یافتہ ہیں۔ یہ ایوارڈ ان پارکوں کو نہیں ملا ہوگا بلکہ یہ ایوارڈ شاید ان افراد کے لئے ہوگا جو ان کی خوبصورتی کو برقرار رکھتے ہوں گے۔ عدیل کے بتانے پر میرے دل میں ایسا خیال آیا کہ پارک تو اس سب سے بڑے مصور کی تخلیق ہیں جس نے لینڈ اسکیپ کے طور پر دنیا بنائی اس پر پہاڑ جمائے، درخت و پھول بوٹے اگائے، ان پارکوں کے یہ حسین مناظراس کی ثناء کر رہے ہیں۔
درختوں کا سایہ سورج کے مغرب کی جانب ڈھلنے کی بناء پر لمبا ہوتا جارہا تھا۔ اِس کے ساتھ ایک چھوٹا سا سایہ میرے بڑھتے سائے کو پکڑنے کی سعیِ لاحاصل میں سبزے کے قالینوں پر بھاگا پھر رہا تھا اور وہ عنایہ تھی میری ننھی پوتی۔
ہاں میں سب سے بڑے مصور کی اس تخلیق میں دور تک اندر جاچکا تھا۔ یہ ایک سحر کا سفر تھا جو میرے اندر جاری تھا۔ ڈھلتے سائے، ہر سو خاموشی، آج پرندے بھی نجانے کیوں خاموش تھے، ہلکے ہلکے بادلوں میں سے در کر آتی سورج کی روشنی میں اس پارک کے سرو قد پودے زمین کو آسمان سے ملا رہے تھے۔
کچھ آگے موجود جھیل کے پانیوں میں قطار اندر قطار کھڑے درختوں کا عکس عجیب منظر پیش کررہا تھا۔ بروک سائیڈ پارک کے روشنی میں چمکتے سرسبز درخت، جھیل کے ساکت پانی میں دائرے بناتے چھوٹے چھوٹے کیچوے، اس ہٹ سے بہت خوش نما لگ رہے تھے جہاں اس وقت ہم موجود تھے۔ اس جیسے منظر نامے میں داخل ہونے والا ہر شخص خود بھی منظر بن جاتا ہے۔
مجھے ہر طرف خاموشی محسوس ہورہی تھی۔ نہ شہر میں سنائی دینے والا شور تھا اور نہ کسی پتے کے ہلنے کی صدا تھی، نہ شہر میں فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کے ہمہ وقت ہارن کی کوئی آواز، یہاں کا منظر بالکل ایک ساکت تصویر کی مانند تھا۔ یہ پارک اتنا بڑا تھا کہ ہمارے ساتھ پارک میں داخل ہونے والے افراد نجانے پیچھے کس سمت مڑگئے تھے۔
اچانک سامنے ایک خوبصورت ہٹ نظر آیا جہاں ایک چینی یا شاید جاپانی جوڑا اپنی محبت کو امر کرنے میں مصروف تھا اور ایک تیسرا فرد ان کے اس محبت نامے کو کیمرے میں محفوظ کر رہا تھا۔ میں نے اِدھر اُدھر دیکھا لیکن بچے اس منظرنامے سے پہلو تہی کرتے ہوئے ایک دوسرے راستے کی جانب مڑ کر آگے جاچکے تھے، میں اپنے پیر میں موجود ویری کوز وینز (varicose veins) میں کھنچاؤ کی بناء پر پیچھے رہ گیا تھا۔ میں نے ایک اچٹتی سی نظر اس جوڑے پر ڈالی اور اسی راہ پر چل دیا جس پر میرے بچے گئے تھے۔
جھیل کا پانی ایک تنگ سے راستے سے ہو کر دوسری جانب جا رہا تھا اس رستے میں انتظامیہ نے زگ زیگ کی شکل میں پتھر رکھے ہوئے تھے جن پر پیر رکھ کر دوسری جانب اسی پگڈنڈی کا تسلسل تھا جس سے گزر کر ہمیں آگے جانا تھا۔ اس منظر کو دیکھ کر مجھے مصطفی زیدی کا شعر یاد آ گیا۔
انہی پتھروں پر چل کر اگر آسکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
بعض اوقات ایسی باتیں ذہن میں در آتی ہیں جو پوری طرح منظر میں فٹ نہیں آتیں لیکن کوئی ایک چیز انسانی ذہن کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہے۔ جھیل کے اس تنگ سے راستے کے دونوں جانب میموریل پتھر ایستادہ تھے یا یوں کہہ لیجئے کہ کتبے آویزاں تھے، بچے بھی وہیں موجود تھے۔ اس سے پہلے ایک وسیع و عریض سا ڈھلوانی لان تھا جہاں عنایہ ڈھلوان پر نیچے کو بھاگی چلی جارہی تھی اور عدیل اس کے تعاقب میں تھا۔
خاموشی کے سحر میں ڈوبی اس شام میں، میں نے ان میموریل پتھروں پر نظر ڈالی۔ یہ پتھر بولنے لگے کہ سن 2002ء میں دو جنونی افراد کی تخریب کاری نے تیرہ معصوم انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا ان میں سے 10 مرد و زن کو اسنائپرز نے واشنگٹن ڈی سی کے علاقے میں موت کی نیند سلا دیا۔ دوسرا پتھر بتانے لگا کہ مجھ پر اِن دس افراد کے نام کنندہ ہیں جو اس حادثے میں مارے گئے۔ یہاں یہ پتھر اس بات کی گواہی کے لئے لگائے گئے ہیں کہ یہ افراد ہم میں سے تھے اور ہمارے ساتھ کام کرتے تھے اور ان کے لواحقین تنہا نہیں ہیں، یہ پتھر اُن کے خاندانوں کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہار کرنے والوں کی محبت کا اظہار بھی ہے۔
میرے اندر کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا، جنونیت اور وحشی پن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی کوئی مذہب نہیں ہوتا، یہ ہر ملک و قوم میں موجود ہوتا ہے۔ یہاں ایک محبت بھرا پتھر شاید لواحقین کے لئے کافی ہوتا ہوگا کہ کچھ مہربان ان کی کفالت کردیتے ہیں لیکن کیا کیجئے کہ ہمارے ہاں محبت بھرے پتھروں سے کام نہیں چلتا اور کتنے پتھر لگائے جائیں گے اور کون ان کے لواحقین کی اشک شوئی کرے گا۔ جب تک بچے اور بیگم آگے چلنے کے لئے تیار نہیں ہوگئے میں نے ان پتھروں پر کنندہ اور ان ہی کی مانند اپنے وطن کے بے نشان افراد کے احترام میں خاموشی اختیار کئے رکھی۔

Post a Comment