الیاس بابر اعوان
سکوت ِقریہ ء بغداد میں ذرا ہمیں مل
ہماری خاک سے پیکر بنا ، قضا ہمیں مل
شعاع ِمہر کبھی دیکھ تو چراغ ِ دیار
شکوہ ِ خواب کبھی بر سر ِ فنا ہمیں مل
پڑے ہوئے ہیں تہہِ آب و گل تہی صورت
ستارہ لوگ ہیں اے دست ِ ارتقا ہمیں مل
ہم اور کتنی نگاہوں کا کشٹ کاٹیں گے
ہمارے خواب کسی روز برملا ہمیں مل
کبھی اے حسن ِ فسوں گر کلام کر خود سے
تُو آئنے کو کبھی دیکھنے کو آ ہمیں مل
یہ باغ ، باغ نہیں ہے حصار خانہ ہے
نجانے کس نے ہمیں دی تھی یہ صدا ہمیں مل
کہاں گئے ہیں مرے منتظر مرے ہم خواب
میں چُپ ہُوا تو عدم نے یہ دی صدا ، ہمیں مل

Post a Comment