کل میں نے چاند سے کہا آہستگی کے ساتھ
تم فرد لگ رہے ہو محبت قبیل کے
(مبشر سعید)
اردو غزل میں اکثر شعراء نے انسانی محبت کے زمینی جذبے کو آسمانی بنا کر اور معاملات عشق کو جزدان میں لپٹ کر پیش کیا ہے۔ وہاں عاشق اتنا معذور ہے کہ اس کا ہاتھ خود سر محبوب کے دامن تک کبھی نہیں پہنچتا۔ اتنا مظلوم کہ ستم سہنے کے بعد بھی شعلہ خو، پری زاد کو دعائیں دیتا ہے۔ اتنا نیک کہ محبوب کے فراق میں رات بھر آہیں بھرتا ہے اور جب وہی محبوب مائل بہ کرم سامنے آجائے تو وصال کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ مبشر سعید کی خواب گاہ میں ریت، میں ہمیں عشق و محبت کی یہ سماوی تفسیر اور عاشق کی ایسی معصوم تصویر نہیں ملتی۔

اس کی غزل کاعاشق ایسا مرد ہے جو جسم رکھتا ہے اور جسم کی آواز بھی سنتا ہے۔ جو مٹی سے پیدا ہوا ہے اور مٹی کی خوشبو پوری طرح محسوس بھی کرتا ہے۔ اس کے شعروں میں وصل و ہجر کی کیفیتوں کا ذکر بھی موجود ہے۔ ہر طرف کھلے موسموں کی نکھری فضائیں اور ہر جانب نیلے آسمان کی روشن وسعتیں دکھائی دیتی ہیں۔
مجھ کو یہ میر تقی میر بتاتے ہیں سعید
عشق کرنا ہے مگر جان سے جانے کا نہیں
وصل کی روشنی آنکھوں میں بسانے کے لئے
تم بھی سو جاؤ مرے خواب میں آنے کے لئے
زندگی ہجر ہے اور ہجر بھی ایسا کہ نہ پوچھ
سانس تک ہار چکا، وصل کماتا ہوا میں
غزل کے شعر کو وہی شاعر بات کے روپ میں پیش کرسکتا ہے جو ہر طرح کی بات کہنے کی قدرت رکھتا ہو۔ جس نے عزم کرلیا ہو کہ بات کو قاری تک بہرحال پہچانا ہے۔ مبشر سعید نے بات کہنے کا یہی دل پذیر انداز اختیار کیا ہے۔ اسی لئے اس کے شعروں کی تفہیم کے لئے کسی شرح کی ضرورت نہیں اور لفظوں کی روح تک پہنچنے کے لئے کوئی فرہنگ درکار نہیں۔ سارا کلام پڑھ جائیے کہیں کوئی ادق لفظ نہیں۔ مبشر سعید نے جو شعر کہا، بات کے انداز میں اور جو کچھ کہا سادہ اور دلکش انداز میں۔ وہ جانتا ہے کہ قائم و دائم رہنے والی بات مکمل ابلاغ ہے اور ابلاغ کی منزل اس وقت تک ہاتھ نہیں آتی جب تک شعر کو سادگی، روانی اور بے ساختگی کے زیور سے آراستہ نہ کیا جائے۔
مبشر سعید کی شعری باتوں میں برجستگی اور بے ساختگی ہے اور ان باتوں میں ابلاغ مکمل ہے۔
ہم محبت بھی عبادت کی طرح کرتے ہیں
واعظو! ہم کو عبادت نہ سکھاؤ، جاؤ
مبشر سعید نے اپنی باتوں کو مختلف جہتوں میں تقسیم کیا ہے۔ کبھی وہ اپنے وجود کے اندر کے شخص سے اور کبھی محبوب سے باتیں کرتا ہے۔ کبھی ماحول سے اور کبھی ماحول میں رچی بسی ہمہ تن گوش فضاؤں سے ہم کلام ہوتا ہے۔ بات کہنے کے اس رنگ نے اس کی شاعری کو دھنک رنگ بنا دیا ہے۔
چل رہا تھا تو سبھی لوگ مرے بازو تھے
گر پڑا ہوں تو کوئی ہاتھ بڑھانے کا نہیں
مجھے سعید، اداسی نے خاموشی سے کہا
سفر طویل ہے تو چل، کلام کرتے ہیں
گوئٹے کا کہنا ہے کہ دراصل محبت ایک آدرش کی شکل میں خود میرے اندر موجود تھی، یہی آدرش مبشر سعید کا سرمایہ ہے اور اسی آدرش کے زیر اثر مبشر سعید نے محبت کا اظہار یوں کیا ہے۔
تیری یادوں کو ہم اشکوں میں بھگوئے ہوئے ہیں
غور سے سن تو سہی قہقہے روئے ہوئے ہیں
عالمِ وجد سے اظہار میں آتا ہوا میں
یعنی، خود خواب ہوا، خواب سناتا ہوا میں
حلقہ شعر سے گزروں گا محبت میں سعید
اپنے جذبات کو الفاظ میں لاتا ہوا میں
سپردگی، غزل کی جان ہے اور محویت غزل کا ایمان۔ اس امر کا اعلان فراق گورکھ پوری نے 1954ء میں اردو کی عشقیہ شاعری میں کیا جس سے محبت کا تصور بدل کر ایک نیا ارفع تصور سامنے آیا۔ مبشر سعید نے دیکھیئے اس تصور کو کس طرح باندھا ہے۔
میں اگر پھول کی پتی پہ تیرا نام لکھوں
تتلیاں اڑ کے ترے نام پہ آنے لگ جائیں
یہ تری یاد کا، آواز کا، احساس کا لمس
وصلِ ضوریز کے جذبات جگائے مجھ میں
اپنے کلام کی جامعیت پر مبشر سعید کو کامل یقین ہے۔ وہ کہتے ہیں،
یہ کیا دیوان غالب کے حوالے؟
ہمارا شعر کچھ تازہ نہیں کیا؟
یہ کہا جاسکتا ہے کہ مبشر سعید کی کتاب ’’خواب گاہ میں ریت‘‘ اپنی معنویت میں معرفت، رومانیت کی منفرد آواز ہے۔

1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں