انور زاہدی


آو پھر مل کے خواب ہو جائیں 
دشت میں اک سراب ہو جائیں
جیسے بہتی تھی آگ پانی میں 
ایسے مثل حباب ہو جائیں
پھر ہوا ڈھونڈتی پھرے ہم کو 
پا سکے نہ حجاب ہو جائیں
آو تحریر عشق کو کر دیں 
ایک انمٹ نصاب ہو جائیں
پھر لکھیں نظم 'غزل ہم انور 
پیار کی اک کتاب ہو جائیں 

Post a Comment