سلیم طاہر
توفیق ہو تو کچھ ، مرے کاسے میں ڈال دے
ورنہ ، تری رضا ہے ، ہوا میں اچھال دے
تو آنے والے دن کی ضمانت نہ دے مجھے
بہتر یہی ہے ، وعدہِ فردا پہ ، ٹال دے
میرے جواب سے تو ، اگر مطمئن نہیں
جو پوچھنا ہے پوچھ مجھے  لا سوال دے
جو ، آج ہم کو ، بیٹھنے دیتا نہیں کہیں
کل کیا عجب ہے وہ ہمیں دل سے نکال دے
تیری طرح کا دوسرا کوئی نہیں ، مگر
میری طرح کا بھی کوئی ہے تو مثال دے
اک بار پھر سے لوگ مجھے ، دیکھنے لگیں
اک بار پھر سے کوئی ہنر دے ، کمال دے
میں خود حساب دوں گا ، دل ِ بد گمان کا
پہلے تو میرے گزرے ہوئے ماہ و سال دے

Post a Comment