نوید افض
گیا نہیں وہاں آنکھیں بچھڑ رہی ہوں گی
کسی کے گھر مجھے آوازیں پڑ رہی ہوں گی
کوئی درختوں کے سائے سے چل دیا ہو گا
سحر کے ساتھ ہی چڑیاں جھگڑ رہی ہوں گی
سلیقے سے اُنہیں پہنانے والا ہو گا کہاں
اب اُس کی بالیاں کانوں سے اَڑ رہی ہوں گی
حنا بھی پھیکی پڑی ہو گی اور وہ گھبرا کر
گذشتہ مونگے انگوٹھی میں جڑ رہی ہوں گی
دلوں میں بستیوں کے ہو گی رنج کی دیمک
برُوں جُڑی ہُوئی اندر اُدھڑ رہی ہوں گی
ملال ہو گا کسی اور بات کا اُن کو
سہیلیاں وہاں بے بات لڑ رہی ہوں گی
چپاتی دھرتے ہُونے شام کی اداسی میں
نگاہیں خالی سی ڈیوڑھی پہ گڑ رہی ہوں گی
فلک سے جُڑتا ہُوا رشتہ ٹوٹتا ہو گا
نوید ! شاخیں صنوبر کی جھڑ رہی ہوں گی

Post a Comment