علی اصغر عباس
یہ عشق پیڑ اُگایا نہیں اُگا ہے خود
چراغ ہم نے جلایا نہیں جلا ہے خود
وہ ایک بُت جو نہایت ہی خوبصورت ہے
خدا کسی نے بنایا نہیں، بنا ہے خود
گماں کی اور جو ادراک کا احاطہ ہے
اسی کی سمت یہ وجدانِ در کھلا ہے خود
پہاڑ کاٹ کے رستہ بنا لیا ہم نے
یہ نیلے پانی کا دریا مگر بہا ہے خود
اکیلا اور بھی تنہا سا ہوگیا ہوں دوست
خلا زمین کی حد سے نکل گیا ہے خود
موئن جو ڈیرو کے اطراف گھوم آیا ہوں
ہڑپہ، ٹیکسلا سے مختلف ہوا ہے خود
کمال خیز تحیر جو اشک زار میں ہے
ہمارے درد کی تکلیف میں ملا ہے خود
یہ طبلِ جنگ نہیں کوچ کا نقارہ ہے
روانہ ہونے کے اوقات میں بجا ہے خود
یہ گنجِ زیست بہت قیمتی خزانہ ہے
ہمارے ہاتھ مقدر سے ہی لگا ہے خود

Post a Comment