غارِ سخن میں بیٹھ کے لکھتا ہوں میں غزل
یہ فن یونہی نہیں ملا لہجوں کے شہر میں 
ہوں دوسروں سے مختلف اپنے مزاج میں 
پہچان میری ہے جدا لہجوں کے شہر میں 
،،زندگی کے چاک پر،، کو میں نے انہی اشعار کے حوالے سے دیکھا ہے۔میں نے اس شعری مجمموعے  میں سحرتاب رومانی کو نہیں صرف شخص کی تلاش کی ہے۔زندگی کے چاک پرکی غزلیں سحرتاب رومانی کی فنی پختگی اور منفرد اسلوب کا منہ بولتا ثبوتہیں۔یہ غزلیں عصرِ حاضر کے شعری اسلوب سے قدم ملا کر چلنے کی تاب رکھتی ہیں۔
سحرتاب رومانی کی شاعری پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ شاعری انسان کے داخلی جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔انہوں نے غزل کو  روایت سے ہٹ کرنئے مضامین دئیے ہیں۔ سحرتاب رومانی کے کلام میں خیال اور جذبہ الگ الگ قالب کے طور پر دکھائی نہیں دیتے بلکہ شیر و شکر ہو کر ایک خوبصورت شعر میں ڈھل جاتے ہیں۔

رسا چغتائی کہتے ہیں کہ میں میر و غالب  اور حسرت و فیض سے خوف نہیں کھاتا ہوں کہ ان شعراء کو جو کچھ کہنا تھا اور موضوعات کو جو رخ دینا تھا دے چکے لیکن میں نئے شعراء سے خوف کھاتا ہوں کہ نجانے کون کس وقت کیا لکھ دے اور زندگی کو نجانے کس رخ سے دیکھ لے،اکثر شعراء کے حوالے سے یہ کہہ چکا ہوں  کہ یہ کسی شمارو قطار میں ضرور آ جائیں گے،لیکن یہ کہہ سکتا ہوں کہ گذشتہ دو دہائیوں سے سحرتاب رومانی کی شاعری مجھے نہ صرف غور و فکر پر آمادہ کرتی رہی ہے بلکہ ان کے  کئی اشعار پر میں نے بے اختیار داد دی ہے۔سحرتاب رومانی اپنے ہم عصروں میں اعتبار کی منزل پر فائز ہیں۔
دیوار و در سے وحشتیں جاتی نہیں سحر
اک دشت ہے مکاں سے میرے ملا ہوا
زندگی کے چاک پر کا دیباچہ لکھتے ہوئے رفیع اللہ میاں لکھتے ہیں،،سحرتاب رومانی میرے لئے اب بھی ایک ایسے شاعر ہیں جو اشعار کی مشق کے دوران بہت سارے ایسے شعر کہہ جاتے ہیں جنہیں کہنے اور لکھنے کے بعد حذف کر دینا چاہیئے لیکن وہ انہیں اپنی غزلوں میں شامل کر دیتے ہیں۔یہ ایسے اشعار ہوتے ہیں جو الفاظ کے معمولی ردوبدل کے ساتھ بہ کثرت نوآموز اور بے نام شاعروں کے ہاں بطور مشق ملتے ہیں۔اگرچہ رفیع اللہ میاں نے اپنی اس بات کے ثبوت میں کوئی ایسا شعر درج نہیں کیا جو ان کی اس بات کو ثابت کرتا۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے ابتدا میں ایسا پیرا لکھ کرخود کو سکہ بند نقاد ثابت کرنے کی کوشش ہو لیکن بعد میں انہیں خیال آیا کہ وہ تو دیباچہ لکھ رہے ہیں  سو انہوں نے پینترا بدلا اور رطب اللسان ہو گئے۔
میں نے سحرتاب رومانی کی گذشتہ کتاب،، گفتگو ہونے تک،، پر اپنا کالم لکھتے ہوئے لکھا تھا کہ سحر تاب رومانی ایک جمال پسندشاعرہیں حسن ان کے نزدیک دعوت نگاہ ہی نہیں ایک نغمہ جمال فروز بھی ہے، ان کا مذاق جمال پسندی رفیع اور شدید ہی نہیں جمال انگیز اور ترانہ ریز بھی ہے۔ سحر تاب رومانی نے حسن کو لالہ و گل کے پردوں میں چنگ و رباب کے آئینوں میں دیکھا ہے کہ ان کے مذاق عشق میں بھی سو طرح کی رنگینیاں اور رعنائیاں ابھر آئی ہیں۔ ان کی فنی قدریں تصور جمال سے تخلیق ہوئی ہیں۔ ان کے فکروفن میں حسن محبوب کی شوخیاں سما گئی ہیں۔ان کے اشعار میں جو خوبصورتی ہے وہ کسی کے لطفِ فن کا فیض ہے۔ حسن ان کے قلب و روح میں اس طرح نفوذ کر گیا ہے کہ ان کی آواز خود حسن کی آواز بن گئی ہے۔
،،زندگی کے چاک پر،، کا مطالعہ کرتے ہوئے میرا تاثر ہے کہ اگرچہ شاعری کا سفر تیزی سے آگے بڑھا ہے۔پختہ خیالی میں اضافہ ہوا ہے لیکن سحر تاب رومانی کا رومانی ابھی باقی ہے۔
چاہت کی یہ بارش زندہ رکھتی ہے
دل کو تیری خواہش زندہ رکھتی ہے
تمہاری آرزو جاتی نہیں ہے
فلک پر اک شفق ہے اور میں ہوں 
دشت ہوتی زندگی کے چاک پر
خواب لکھتا، شاعری کرتا ہے کون
میں نے اک روز ترا نام لکھا پانی پر
جس کی برکت سے حسیں پھول کھلا پانی پر
زندہ شاعری کی تخلیق کے لئے صرف موزوں طبع ہونا ہی کافی نہیں ہوا کرتاجب تک کہ شعری ہنروری کے مطالبات سے آگہی حاصل کرتے ہوئے ریاضت کا وطیرہ اختیار نہ کر لیا جائے، درحقیقت ریاضت ہی فکری مواد کی رواں ترسیل کے لئے با سلیقہ طریق اظہار متعین کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔اور ریاضت ہی کی بنیاد پر تخلیق کار اپنے فکری نتائج پر منحصر مضامین سہولت کے ساتھ پیش کرنے کا شعری میکنزم ترتیب دے کراس کا ثمر حاصل کرتا ہے۔اپنے اسلوب کے اعتبارات قائم کرنے کے لئے شاعر کو بہر طور اپنے احساسات و جذبات کے اظہاری توازن کے معیارات مقرر کرنے ہوتے ہیں۔
تھا خدا سے بہت ضروری کام
اس لئے دیر تک عبادت کی
تیری نگاہ میں رہے بجھتا ہوا دیا
ورنہ تو کائنات میں ہم آفتاب تھے
سحر تاب رومانی کی غزلیں ان کی شخصیت کی آن بان رکھتی ہیں اور ان کے طرز حیات کا پتہ دیتی ہیں۔ ان کے جذبات میں، ان کے فکر و تخیل میں ایک دھیمی معتدل کیفیت اور ان کے تجربات کی صداقت کا عنصر نظر آتا ہے۔

4 تبصرے

  1. سحر تاب رومانی کی شاعری اور شخصیت کے حوالے سے رضا صدیقی صاحب کی تحریر بےحد فکر انگیز ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. سحر تاب رومانی کی شاعری اور شخصیت کے حوالے سے رضا صدیقی صاحب کی تحریر بےحد فکر انگیز ہے

    جواب دیںحذف کریں
  3. بولتا کالم ‘‘کے ادبی تبصرے ہیں بے نظیر
    ہے رضا صدیقی کا یہ کارنامہ دلپذیر

    ’’ زندگی کے چاک پر‘‘ اس میں ہے اب موضوعِ بحث
    ایسا عصری حسیت لانا ہے برقی جائے شیر
    احمد علی برقی اعظمی


    جواب دیںحذف کریں
  4. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں