کچھ دیکھا کچھ ان دیکھا سا۔۔۔ دھندلا ایک ہیولیٰ
کون ہے؟ کیا میں؟یا پھر تو ہے؟
بات یہ کون بتائے
دیواروں پرگھٹتے بڑھتے،کالے پیلے سائے
روزن سے چپکی آنکھوں نے راز انوکھے پائے
دور کہیں در ہیں کچھ روشن
آنکھ وہیں جم جائے
انسان اپنی ہجرتِ زمینی کے بعد سے اسی قسم کے گماں میں مبتلا ہے۔سوالات کا ایک انبوہ ہے، ربِ عظیم نے اگرچہ سب کچھ انسان کو سکھایا لیکن پھر بھی سوچ میں ڈوبا رہا یہ انسان۔ اس زمین پر اتارے جانے کے بعد جب مشرق سے سورج نے سر اٹھایا تو اس نے سمجھاکہ یہی میرا رب ہے اور اس نے اس کے سامنے سر جھکا دیا لیکن جب رات کے سیاہ بادل اسے مغرب میں ڈبو گئے تو انسان نے کہا یہ میرا رب نہیں ہو سکتا  کیونکہ میرے رب کو فنا نہیں ہے۔

یہی سوچ ازل سے انسان کے ساتھ ہے۔ایسا بہت کم ہے کہ ادب میں تشکیک کو شاعروں نے اپنا موضوع بنایا ہو۔عورت ہوں نا، پڑھتے ہوئے میرا گمان ہے کہ عارفہ شہزاد بھی انسانی نفسیات میں پیدا ہونے والے تشکیکی رویے کو اپنی شاعری میں استعمال کرتی ہیں۔
خیال آفرینی ایک پیٹرن کا نام ہے،ایک ایسا پیٹرن جو ہمہ وقت تغیر پذیر رہتا ہے  مگر اس تغیر پذیر پیٹرن کے اندر ایسا اتار چڑہاؤ ہے جو تغیرات کے باوجود پیڑن کی ساخت کو قائم رکھتاہے۔
خیال آفرینی کا ایک امتیازی وصف یہ ہے کہ یہ دوئی پر استوار ہوتا ہے ”ایک“ کی کوئی ساخت نہیں ہوتی لیکن جب ایک دو میں تقسیم ہوتا ہے اور دونوں حصے ایک دوسرے کے روبرو آجاتے ہیں تو ایک ایسا رشتہ ابھرتا ہے جس سے لاتعداد نئے رشتے پھوٹ پڑتے ہیں۔
مثال کے طور پر جب ایک آئینے کے مقابلے میں دوسرا آئینہ رکھ دیا جائے تو عکسوں کا ایک لا متناہی سلسلہ جنم لیتا ہے اور اس طرح ایک کے اندر دوئی کے جنم اور پھر اس کے دائرہ در دائرہ پھیلاو سے رشتوں کی ایک پوری دنیا آباد ہو جاتی ہے جسے ہم پیٹرن کہتے ہیں۔
چکھ آئی ہوں ممنوعہ پھل
کون سا رب ہے جو دیکھے گا
طاق عدد میں طاق ملایا
جفت کا جوڑا آپ بنایا
کون اتارے گا جنت سے
رکھ آئی ہوں آپ زمیں پر
تن من اپنا
ٹی ایس ایلیٹ کا کہنا ہے کہ ہر نئی تخلیق کے وقت شاعر کو ہر نظم میں لفظوں کو نئے انداز میں استعمال کرنا ہوتا ہے اور نئی نظم کا پیرایہ اس کی دوسری نظموں کے پیرایہ سے مختلف ہوتا ہے کیونکہ موجودہ کیفیات نئے احساس اور نئے مطالب کی متقاضی ہیں۔
عارفہ شہزاد کی نظم اس حوالے سے منفرد ہے کہ اس کی ہرنظم اپنا پیرایہ خود لے کر آتی ہے۔ان کی نظم کا بین السطور جس ہیت کا متقاضی ہوتا ہے عارفہ شہزاد کا مزاج اس بین السطور کے مطابق  زبان اور ہیت عطا کرتا ہے۔
عارفہ جذبوں کی شاعر ہے اور اس کے جذبے سچے ہیں جنہیں اس نے ادبی دیا نت داری کے ساتھ قرطاس پر منتقل کیا ہے۔وہ وقارِ فکر کی قائل ہیں۔وہ تطہیرِ فن کی بات کرتی ہیں۔لوح و قلم کی حرمت ان کا مسلک اور انسان دوستی ان کا مذہب ہے۔انہوں نے نظم کے وسیلے سیمثبت انسانی اقدار کو پورے ادبی حسن اور فنی رچاو کے ساتھ قاری تک پہنچایا ہے۔
یہ ہے فخرِ آدم
کہ بس ابنِ آدم
امینِ خدا ہے،قرینِ خدا ہے
یہ ہستی مری
کیا فقط واسطہ ہے؟
یہ تسلیم ہے
میں صحیفوں میں تو
عابدہ،مومنہ،صالحہ کے لقب سے پکاری گئی تھی
مگر جب فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا تھا
تو حوا کہاں تھی؟
یہ گیانی پرواز ہے جس سے سوالوں کے سیکڑوں نغمے پھوٹ رہے ہیں جو سننے والوں کے دل میں اتر کر اثر پذیر ہے۔یقیناََ عارفہ ان شاعروں میں سے ہیں جن کے وجود سے عروسِ نظم کا باکپن باقی ہے۔عارفہ نے لفظ و بیان کی جو قندیل روشن کی ہے۔
اس گیانی پرواز کے بعد ایک بار پھر شکوہ کناں ہیں۔
صحیفے تم پہ اترے ہیں 
تمہارا نام ہے نامی
مرے حصے میں ہے پس پیروی یا ایک ناکامی
تمہاری مہر ہے سکہ تمہارا
لفظ بھی سارے  تمہارے ہیں 
تمہارا نام ہے تاریخ کے سارے ہی خانوں میں 
مری تو سوچ  تک محبوس ہے
بس گھر کے کاموں میں 
عارفہ شہزاد اپنے شعری سفر میں اپنی آنکھ کے ہفت آئینے میں وجود،دنیا،کائنات اور اس کے مظاہرات کے کتنے ہی عکس ابھارتی ہیں جو ایک دوسرے سے جدا بھی ہیں اور آپس میں جڑے ہوئے بھی ہیں۔ہر عکس میں شاعرہ کے انتہائی ذاتی مشاہدے اور تجربے کا رنگ نمایاں ہے جو بڑی بے ساختگی سے آشکار کی گئی ہیں۔
مجھے چاہیئے ہیں 
تمہاری آنکھیں 
زمیں کی کوکھ سے پھوٹتی
سرَ خوشی کے رنگ دیکھنے کے لئے
اور تمہاری سماعت
بارش میں 
قطرۂ ِ نسیاں کی آہٹ سننے کے لئے
اور تمہارے ہونٹ
سورج کی تمازت کا لمس
جذب کرنے کے لئے
اور تمہارے ہاتھ
ہوا کی ہتھیلی پر
حیرت کی داستاں لکھنے کے لئے
اور مجھے چاہیئے ہے
تمہاری ساری محبت
تم سے محبت کرنے کے لئے
عارفہ شہزاد کی،،عورت ہوں نا،،فیمنسٹ کا نہیں تشکیک کا استعارہ ہے۔
۔

2 تبصرے

  1. عارفہ شہزاد کی ’’ عورت ہوں نا ‘‘ ہے سامنے
    جس سے تشکیکی رویہ ہو رہا ہے جلوہ گر

    ندرتِ فکر و نظر ہر شعر سے ہے آشکار
    ہے دعا یہ اہلِ دانش کی ہو منظورِ نظر


    سوز و ساز عشق کا اظہار ہے ان کا کلام
    عہدِ حاضر کی ہیں برقی شاعرہ وہ معتبر
    احمد علی برقی اعظمی

    جواب دیںحذف کریں
  2. عارفہ شہزاد کی ’’ عورت ہوں نا ‘‘ ہے سامنے
    جس سے تشکیکی رویہ ہو رہا ہے جلوہ گر

    ندرتِ فکر و نظر ہر شعر سے ہے آشکار
    ہے دعا یہ اہلِ دانش کی ہو منظورِ نظر


    سوز و ساز عشق کا اظہار ہے ان کا کلام
    عہدِ حاضر کی ہیں برقی ، شاعرہ وہ معتبر
    احمد علی برقی اعظمی

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں