درخشاں صدیقی
عمر کٹ جائے آستانے میں
ذِکر کی محفلیں سجانے میں
یوں ہی ہوتا رہے کرم مولا
اپنے در پر ہمیں بلانے میں
مجھ کو درکار آسرا ہے تِرا
پار کشتی مرِی لگانے میں
حوصلہ بھی بڑھا دیا تونے
شمع بھی اِک نئی جلانے میں
شاملِ حال ہو کرم تیرا
بات بگڑی مرِی بنانے میں
مجھ پہ مولا رہے کرم کی نظر
بخش دینا تو آزمانے میں
ہر ثنا تیری میرے دل پہ رقم
میرے دل کے کتاب خانے میں
مانگتی تجھ سے ہے درخشاںؔ وہ 
ہے جو سب کچھ تِرے خزانے میں

Post a Comment