محمد سلیم طاہر
اک شخص کو جواب ، مجھے دینا پڑ گیا
تحفے میں اک گلاب ، مجھے دینا پر گیا
کرنا پڑی ادایٰیگی ، وعدوں کی ذیل میں
پچھلا بھی کچھ حساب مجھے دینا پڑ گیا
رکھ رکھ کے تنگ آ گیا تھا اپنے پاس میں
دل ، خانماں خراب مجھے دینا پڑ گیا
اپنے دل ِتباہ سے وہ بھی نہیں تھا خوش
اس کو بھی یہ عزاب مجھے دینا پڑ گیا
ہونا پڑا جو منتقل ، مجنوں کو شہر میں
یہ دشت یہ سراب مجھے دینا پڑ گیا
مدہوش دیکھتا رہا ساقی کی سمت میں
ہر جام کا حساب ، مجھے دینا پڑ گیا
یک لخت آ گیا وہ ، نگاہوں کے سامنے
آنکھوں کو اک حجاب مجھے دینا پڑ گیا


Post a Comment