محمد سلیم طاہر

معمول نہیں بدلا کرتے

محمد سلیم طاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سے رنگ ، بادل اور پرندے لوٹ جاتے ہیں
کئی موسم بہت تاخیر کر دیتے ہیں ، آنے میں
٭
مشاہدہ یہ کہتا ہے
کہ دنیا میں ، 
جن علاقوں میں موسم بہت بے رحم ہو جاتا ہے
سخت سردی پڑتی ہے 
وہاں زندگی کا تسلسل
برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے
انسانوں کو بھی 
پرندوں کو بھی 
اور 
اس خطے کے دوسرے حشرات الارض کو بھی
انسانی شعور اور زندگی کو درپیش خطرات 
اپنی زندگیاں محفوظ رکھنے کے لیۓ محفوظ پناہ گاہوں کی طرف
عارضی ہجرت کا سبق دیتے ہیں 
اور 
بلندیوں پر رہنے والے شاید
میدانی علاقوں کا رخ کرتے ہوں ۔ 
موسم کی سختیوں سے بچنے اور زندہ رہنے کے لیۓ ۔
خوراک حاصل کرنے کے لیۓ 
وہاں کی مقامی حکومتیں بھی ، ان کے ذاتی اور اجتماعی وسایٰل بھی اس سلسلے میں ان کے ممد و معاون بنتے ہیں
مگر
پرندوں کو اپنا بندوبست خود کرنا پڑتا ہے
صدیوں سے
ان کی نسلوں سے پیڑھی در ہیڑھی منتقل ہوتا ہوا شعور ان پرندون کی رہنمایء کرتا ہے
اور وہ سب اپنی زندگیوں اور آنی والی نسلوں کے تسلسل کو پیش ِ نظر رکھ کر
اپنی ہلاکت کے اندیشوں کے مدٰ ِ نظر رکھے ،
موسم کے مزید بے رحم ہونے سے پیشتر ہی
گرم علاقوں کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں
پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ
غول کے غول 
گرم علاقوں کی جھیلوں کے پانیوں میں اور ان کے کناروں پر اتر جاتے ہیں
روس سے ، سایٰبیریا سے اڑنے والے پرندے
سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں میلوں کے سفر کے بعد پاکستان کے صوبہ سندھ میں پہنچ جاتے ہیں
صوبہ سندھ کے موسم میں ان کی زندگیوں کو وہ خطرہ جو ان کے آبایء وطن میں لاحق ہوتا ہے ، ٹل جاتا ہے انہیں کھانے کو بھی میسر ہوتا ہے اور وہ موسم کی سختیوں سے بھی بچ جاتے ہیں ـ
یہاں کچھ اور خطرات ان کی زندگیوں کو لاحق ہو جاتے ہیں اور وہ ہیں مقامی اور غیر مقامی شکاری ـــ مگر یہ خطرہ اس سے کم شدت کا ہوتا ہے جو ان کو اپنے وطن میں لاحق ہوتا ہے مگر انہیں اتنا عرصہ یہاں گزارنا ہوتا ہے جب تک ان کے اپنے وطن میں موسم معمول پر نہیں آ جاتا ــ
یہاں کے موسم کے اپنے مسائل ہیں ــ یہاں اکثر موسم اپنے وقت پر نہیں بدلتا ـ دیر ہوجاتی ہے موسمی تبدیلیوں میں تاخیر ہو جاتی ہے - یہ پردیسی پرندے ہمارے موسم کی پناہ میں 
صرف اپنے تحفظ کے لیۓ آتے ہیں انہیں اس سے کوئی سرو کار نہیں ہوتا کہ مقامی موسم تبدیل ہوا ہے یا نہیں ۔انہوں نے صرف یہ اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ ان کے ہاں، ان کے وطن میں موسم بدل چکا ہو گا 
اور پھر سارے کے سارے
اپنے وقت پر ، اپنے وطن کی طرف پرواز کرجاتے ہیں
یہاں کا موسم بھلے بعد میں بدلتا رہے وہ نہیں رکتے ، ان کا معمول ہے
معمول نہیں بدلا کرتے
یہی حال انسانی زندگی کا ہے
جب اسے کسی شے کی طلب ہوتی ہے تو وہ اس کے لیۓ کوشش کرتا ہے
تگ ودو کرتا ہے ، ہر ذریعہ حصول کا استعمال کرتا ہے
مگر کامیابی نہ ہو تو فطری طور پر مایوسی کا بھی شکار ہو جاتا ہے
مگر جب وقت اس کو متبادل مہیٰا کر دیتا ہے تو وہ مطلوبہ شے کی طلب سے پیچھے ہٹ جاتا ہے - اور شے کی اہمیٰت اس کے نزدیک کم ہو جاتی ہے ــ وہ اس کی ضرورتوں سے نکل جاتی ہے اور اپنی اہمیت کھو دیتی ہے - بعد میں چاہے لاکھوں اس طرح کی چیزیں لا کر قدموں میں رکھ دی جایٰیں ـــ کوئی وقعت نہیں رکھتیں

Post a Comment