سبیلہ انعام صدیقی
رّکھے ہر اک قدم پہ جو مشکل کی آگہی
ملتی ہے اس کو راہ سے منزل کی آگہی
سیکھا ہے آدمی نے کئی تجربوں کے بعد
طو فان سے ہی ملتی ہے سا حل کی آگہی
اس کا خدا سے رابطہ ہی کچھ عجیب ہے
دنیا کہاں سمجھتی ہے سائل کی آگہی
نظروں کا اعتبار تو ہے پھر بھی میرا دل
ہے اک صحیفہ جس میں مسائل کی آگہی
دن رات جس کے پیار میں رہتی ہوں بے قرار
اس کو نہیں ہے کیوں دِلِ بسمل کی آگہی؟
یا دو ں کے اک ہجوم میں رہ کر پتہ چلا
تنہائی بھی تو رکھتی ہے محفل کی آگہی
خنجر کا اعتبار نہیں ، وہ تو صاف ہے
لیکن ملے گی خون سے قا تل کی آگہی
مشق ِ سُخنَ سبیلہؔ نکھارے گی فن کو اور
مطلوب ہے کچھ اور ابھی دل کی آگہی

1 تبصرے

  1. بہت اچھی غزل ہے۔ آگہی جیسی مشکل ردیف میں بڑے اچھے شعر نکالے ہیں

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں