کوئی وہم ہے
دن کے کاندھوں کی
ساری رگیں کھینچتا جارہا ہے
مگر رات دوہری ہوئی ہے ہنسی سے
ہتھیلی پہ دھر کے
کوئی خواب آور سی ٹکیہ
بھرے جارہی ہے
یہ پھولا ہوا ایک تھیلا
فقط نیند کی دل لگی سے
مگر نیند کی کوکھ نیلی ہوئی ہے
کوئی زہر آلود ہے خواب
اعصاب میں بھر گیا ہے
کہو رات سے 
پھر ہنسے اور ہنستی چلی جائے
اپنے ہی ہذیان میں
دل مرا خواب میں،خواب سے ڈر گیا ہے
مگر آنکھ کھلتی نہیں ہے
عجب کپکپی ہے
کئی پوریں بھیگی ہوئی آنسووں میں
شناسا بھی ہیں اور کچھ اجنبی بھی۔۔۔
نہیں، ان میں چھونے کی سکت نہیں ہے
کسے چھو کے دیکھیں ؟
ہےعفریت کوئی
کوئی ہشت پا ہے
مرا جسم جکڑا ہو ا ہے
پسینے میں ڈوبا ہوا ہے 
اٹکتی ہیں سینے میں سانسیں
کرہ کوئی تاریک
یوں دائرہ اپنا پھیلائے جاتا ہے جیسے
ازل سے ابد کے
ہر اک راستے کو نگل جائے گا!
سب پگھل جائے گا 
اک تپش سے۔۔۔
جگاو
 مجھے کوئی جھنجوڑ کے
میری آنکھوں کی درزوں کو چیرو
اٹھا کے پٹخ دو زمیں پر
کھلے آنکھ میری
دنوں اور راتوں کا
ٹوٹا سرا جوڑنا ہے
مجھے آخری رات کی 
اس کہانی کا رخ موڑنا ہے
عارفہ شہزاد

Post a Comment