روحزن

ناول زندگی کے ان معنی کا ابلاغ کراتا ہے جو الفاظ، فقروں اور جملوں کی بجائے واقعات، کرداروں اور ان کی ترتیب اور آہنگ سے ادا ہوتے ہیں۔ناول کے واقعات میں گہرے معنی پنہاں ہوتے ہیں، ان کا انتخاب، ان کا دوسرے واقعات سے آہنگ اور تضاد،ان کا ایک ترتیبی مقام، ایک نظریہ یا فلسفہِ حیات یا زندگی کے بے پناہ معنی سامنے لا سکتا ہے۔اسی طرح کردار نگاری کا فن برصغیر میں پریم چند سے پہلے ناپید تھا۔پھر پڑھنے  والے کو معلوم ہوا کہ جہاں جس مرد کا بھی ذکر نام کے ساتھ آجائے وہ کردار ہو جاتا ہے۔کردار کس طرح زندگی کے اہم معنی ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ علامہ اقبال کہتے ہیں:
مری صدائے دو رنگی کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرم راز درونِ مے خانہ

ان کے الفاظ، فقرے اور جملے ہمیں لطف دینے کے علاؤہ ایک فکر کے عالم میں لے جاتے ہیں جہاں ہمیں رازِ دروں سے آگاہی ہوتی ہے۔ اسی طرح ناول نگار بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کا قصہ محض دلچسپ ہی  نہیں ہے  بلکہ اس نے اس کے ذریعے زندگی کے معنی کا ابلاغ کرایا ہے۔ انیسویں صدی کے آخری دس سال میں یورپ میں سوشل ناول کی ایک قسم ابھری اور اس کی پیروی برصغیر میں پریم چند نے کی۔گوئٹے جو ادب کی ہر صنف میں معنی خیزی کا نمائندہ ہے اور دو معنی خیز ناولوں کا مصنف بھی، وہ کہتا ہے کہ ادب سے فلسفہ بالکل غائب ہو جانا چاہیئے اور وہ اگر ملے بھی تو صرف انہیں جو فلسفہ ڈھونڈنے کے متلاشی ہوں۔
ناول نگارکے ذھن کی فطری سطح کو بلند ہونا چاہئیے۔یہ بلندی شرافتِ نفس، پیدائشی ذہانت اور قوتِ تخیل، بچپن کے ماحول اور اس کی تہذیبی بلندی اور تعلیم (جس کے معنی محض ڈگریوں کا حصول نہیں بلکہ ہر قسم کا علم اپنے دل کی تسلی کے لئے حاصل کرنا ہے) اور مخصوص فکری رحجان سے حاصل ہوتی ہے۔اگر ہم اسے ناول کی بنیاد قرار دیں تو ایسا ناول نگار جو قصہ بیان کرے گا اور جو کردار سامنے لائے گا ان میں دلچسپی کے علاوہ بڑے معنی پوشیدہ ہوں گے۔
اس وقت ہمارے  پیشِ نظر ہندوستان کے نوعمر ناولسٹ رحمنٰ عباس کا چوتھا ناول،،روحزن،، ہے۔ناول کے اختتام پر ایک نوٹ کے ذریعے رحمنٰ عباس  نے وضاحت کی ہے کہ،،روح اورحزن کی آواز نیز ان الفاظ کے معنی، لفظ،، روحزن کی تشکیل کے وقت میرے ذہن میں تھے لیکن اس لفظ کو روح اور حزن کا مرکب نہ سمجھا جائے۔روحزن بطور سالم لفظ ایک ذہنی،جذباتی اور نفسیاتی صورت حال کو پیش کرتا ہے۔ناول اس کیفیت کی پیش کش کے ساتھ ایک نئے لفظ کو صورت عطا کرنے کی کوشش ہے۔،،
ناول فلیش بیک تکنیک میں لکھا گیا ہے۔ناول کا آغازاس فقرے سے کیا گیا ہے،،اسرار اور حنا کی زندگی کا وہ آخری دن تھا،،یہی ناول کا اختتام ہے۔ اس اختتامیے کے اول و آخر اندراج کے درمیان ناول کی پوری کہانی بکھری پڑی ہے،ناول نگار اسرار کے مضبوط کردار کے ذریعے کہانی کو لے کر آگے بڑھتا ہے۔ناول میں سمندر دوسرا اہم کردار ہے جس  کے جوار بھاٹا کے اثرات ناول کے مرکزی کردار پر سارے ناول میں دیکھے جا سکتے ہیں۔سمندر کی یہی جوالا مکھی اسرار کی ذات میں بچپن سے راسخ ہو جاتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سمندر کا اتار چڑہاؤ،اسرار دیشمکھ میں ساری زندگی موجزن رہتا ہے۔رحمنٰ عباس نے اس کردار کو ایسا ہی تخلیق کیا ہے۔اس کردار کے ساتھ زندگی میں دوسرے کردار آتے ہی بچھڑنے کیلئے ہیں یا سیکس کرنے کے لئے،اسرار شاید راسپوٹین ہے  یا شاید رحمنٰ عباس  ممبئی  کا ماحول ایسا ہی دکھانا چاہ رہا ہے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسا اس لئے ہو کہ جس ماحول میں یہ ناول تخلیق پایا ہے وہاں کے قاری ریشم میں لپٹی سیکس سے حز اٹھاتے ہوں۔شاید منٹو بھی اس لئے بکتا ہے کہ وہ انسانی نفسیات کی گتھیاں سیکس میں سلجھاتا ہے۔روحزن کا یہ کردار،کبھی مس جمیلہ پر اپنے نفس کا اظہار کرتا ہے کہ رحمنٰ عباس کے نزدیک،،خواہش آدم کی مٹی کا کلیدی عنصر ہے، یہی کردار انسانی جسموں کی منڈی کماٹی پورہ میں پہلی بار جنس آشنا ہوتا ہے۔اس جیسی صورتحال کا اظہاریہ بہت  خوبصور ت  ہے،،محمد علی اسرار کی کیفیت سمجھ رہا تھا اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ کھولی میں شام گئے اگر کوئی دو ڈھائی گھنٹے لیٹ ہو جاتا ہے تو عموماََ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کماٹی پورہ کی نیم تاریک کھولیوں میں اپنی رگوں کا لاوا تھوک  کر آ رہا ہے۔،،
ناول،جیسا کہ میں نے کہا آدمی کی زندگی،ثقافت،معاشرت اور نفسیات کے پس منظر میں اس کی جذباتی گتھیوں کی تہہ در تہہ پھیلی دنیا اور اس کے رشتوں کی پیچیدہ اور مبہم کیفیتوں کو گرفت میں لانے سے عبارت ہے۔رحمن عباس  نے روحزن میں انسانی جذباتی گتھیوں کو صرف اور صرف جنس سے تعبیر کیا ہے۔                              
رحمن عباس اس سے پہلے تین ناول دے چکے ہیں۔ ان کا پہلا ناول نخلستان تھا جو سن 2004 میں شائع ہوا دوسرا، ایک ممنوعہ محبت کی کہانی تھا جو 2009ء میں چھپاجبکہ تیسرا ناول،خدا کے سائے میں آنکھ مچولی تھا۔ اایک ممنوعہ محبت کی کہانی نامی ناول کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ رحمن عباس کے اس ناول میں منٹو کی طرح انسانی نفسیات کا گہرا شعور پایا جاتا ہے۔انہیں الجھنوں سے زیادہ دلچسپی ہے۔عام انسان کی فطری کمزوریوں اور پستیوں کارحمنٰ عباس  خوب علم رکھتے ہیں۔اس ناول میں انسانی نا آسودگیوں کے معاملات و مسائل اور ان کے پسِ ِپردہ عمل اور ردِعمل کے طور پر فطری آسودگی کے لئے سیاہ کاریوں میں ہوتے عوامل کی آگہی  ملتی ہے۔
 رحمن عباس کے نئے  ناو ل،، روحزن،، میں لکھنے کاسابقہ ناولوں کا سا بے ساختہ پن پایا جاتا ہے روانی اور سلاست اتنی ہے کہ انسان بس پڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔کردار و واقعات کی ترتیب ایسی ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ناول زندگی کے ان معنی کا ابلاغ کراتا ہے جو الفاظ، فقروں اور جملوں کی بجائے واقعات، کردار اور ان کی ترتیب اور آہنگ سے ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ناول کے واقعات میں گہرے معنی پنہاں ہیں، ان کا انتخاب، ان کا دوسرے واقعات سے آہنگ اور تضاد،ان کا ایک ترتیبی مقام،ایک نظریہ یا فلسفہِ حیات یا زندگی کے بے پناہ معنی سامنے لا سکتا ہے۔ہم نے کہا نا کہ نا آسودگی  اور تشنہ جذبات جو اثر دکھاتے ہیں رحمنٰ عباس نے بڑے دحیمے سے انداز میں میں ان کا اپنے کرداروں کے ذریعے ابلاغ کرایا ہے۔ اس نے اگر چہ تشبہ استعارے سے کام نہیں لیا لیکن صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کے مصداق کرداروں اور واقعات کے ذریعے معنی کا ایک وسیع سمندر پیش کر دیا۔
 اگرچہ ناول میں بے شمار کردار ہیں لیکن اسرار،حنا،شانتی اور مس جمیلہ کے کرداروں کے ذریعے وہ نا آسودہ جنس کی کہانی بیان کرگئے ہیں۔ رحمنٰ عباس کو ایک متنازعہ قلم کار کہا جاتا ہے لیکن ان کے قلم کی بیباکی میں ہی ان کی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔ ہمیں ایک بات پر تعجب ہے کہ جتنے بھی نامور بولڈ قلمکار اردو ادب میں سامنے آئے ہیں وہ سب کے سب مسلمان ہیں، مثال کے طور پر عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو، مشرف عالم ذوقی، ڈاکٹر بلند اقبال اوراب رحمنٰ عباس۔ کیا وجہ ہے اردو ادب میں کسی دوسرے مذہب کے لکھاری اس قدر معاشرت سدھار پیدا نہیں ہوئے؟۔ ناول کا اسلوب سابقہ ناولوں کا سا ہی ہے،تحریر رواں اور جاندار ہے لیکن مذہب کے بارے میں رحمنٰ عباس کو لکھتے ہوئے کچھ سوچنا چاہیئے۔ان کے ہندو معاشرے میں رہتے ہوئے مذہب سے ایسا برتاؤ یہ کہتا محسوس ہوتا ہے کہ رحمنٰ عباس ہندو معاشرے کے زیرِ اثر لکھنے والا قلمکار ہے۔

Post a Comment