قمر رضا شہزاد
محبتوں سے جو اتنا ڈرا ہوا ہوں میں 
کسی کے دکھ سے لبالب بھرا ہوا ہوں میں
طلوع ہوتی ہوئی روشنی کو کیا معلوم
کسی منڈیر پہ کب سے دھرا ہوا ہوں میں
ہر ایک حال میں کہنا پڑے جو تیری رضا 
یہ زندگی ہے تو سمجھو مرا ہوا ہوں میں
مہک رہے ہیں مری ٹہنیوں پہ رنج کے پھول 
کسی کے زخم کی صورت ہرا ہوا ہوں میں
بلا کا کھوٹ تھا میرے وجود میں شہزاد 
لہو کے سیل میں بہہ کر کھرا ہوا ہوں میں

Post a Comment