حشمت لودھی
ابھی ساون نہیں برسا 
اندھیری رات کی حابس فضا اٹکی ہے سینے میں 
فقط جگنوں چمکتے ہیں
یا اشکوں کے دءے ہیں 
جھلملاتے ہیں 
بھیگی پلکوں پر 
ابھی جنگل نہیں گزرے 
نہ دریا پار اترے ہیں 
کسی منظر میں کوئی راستہ ایسا نہیں 
جو ہمسفر ٹھرے 
سبھی راستوں کو گہری دلدلوں نے گھیرا ہے 
ادھورا ایسا ہی قصہ مری پوری کہانی ہے 
کہانی کا ہر اک منظر مری کھوئی جوانی ہے 
کہانی میں خوابوں کی دل آویز بستی ہے 
مجھے اس پار جانا ہے 
مرا اک خواب باقی ہے 
وہاں جاکر سنا نا ہے 
یہی تو سارےقصے میں 
مرا اک کام باقی ہے 
کہانی. ہو چکی لیکن 
ابھی انجام باقی ہے

1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں