انور زاہدی
پھر ہوئی شام تو دیوار سے سائے اترے
وہ مجھے دیکھنے پھر بام سے آئے اترے
کون کرتا ہے کسے یاد محبت نہ ہو گر
آئے ملنا ہے جسے آنکھوں میں آئے اترے
دن رہا دھوپ کے میدان میں صحرا جیسے
شام آئے تو گھٹا کی طرح چھائے اترے
دن بھرا دھوپ کا سپنوں سے سجے ہیں بادل
شام جب آئے تو منظر کو سجائے اترے
سرمئی شام میں انور ہے تری یاد ہوا
رات جب آئے چراغوں کو جلائے اترے

Post a Comment