گنبد ِسبز سے ، روشن ہوا سینہ میرا
میں تو کہتا ہوں کہ میرا ہے مدینہ میرا
قریہء ہجر میں ، دن رات پڑا رہتا ہوں
یہی جینا ہے تو پھر خاک ہے جینا میرا
مجھ کو انگلی سے پکڑ ، راہِ ہدایت پہ چلا
اب تو سیدھا ہے ، سلیقہ نہ قرینہ میرا
مجھ کو خود عشق کے آداب سکھا دے مولا
اب تو کھانا ، مرا کھانا ہے نہ پینا میرا
دل کروں فرش تری راہ میں، میں آنکھیں بچھاؤں
تیرے قدموں کو ، ترستا ہے یہ زینہ میرا
دیر تک رات کو سونے نہیں دیتا مجھ کو
اتنا مشتاق ہے ، یہ دیدہء بینا میرا
مجھ کو آقا سے محبت مرے مولا نے سکھایء
اس میں پھر ایک ہوا ، خون پسینہ میرا
یہ جو دل ہے یہ مرے سینے میں پہلے بھی تھا
تو نے چمکایا ، تو چمکا ہے ، نگینہ میرا
نا امیدی میں بھی ساحل سے لگا رہتا ہے
اک سفینے سے بندھا ہے یہ سفینہ میرا
میرا دشمن بھی جو ملتا ہے تری نسبت سے
اک محبت میں بدل جاتا ہے ، کینہ میرا
میری پہچان بنا ، چاک گریبان مرا
آپ ہی آپ ادھڑ جاتا ہے ، سینہ میرا
مسلک ِ عشق میں عاشق ہے شہیدوں کے مثیل

محمد سلیم طاہر

Post a Comment