انور زاہدی
ہوا کو کیا کبھی تم نے
اگر گالوں یا زُلفوں کو 
وہ چھیڑے
کبھی سرگوشیاں کرتے سُنا ہے
ہوا نے کیا کبھی تم سے کہا ہے
تُمہیں میں کیسی لگتی ہون ؟
یا تم نے اس ہوا کو 
بازووں میں کب لیا ہے ؟
کبھی خُوشبو تمہارے سانس 
بس کر یہ بولی
مجھے بتلاو میں لگتی ہوں کیسی ؟
یا تم نے اس مہک کو 
چُوم کے دیکھا خوشی سے
اور کہا پھر پیارسے اُس سے
میں تم سے پیار کرتی ہوں
کبھی کمرے میں در آ تی
صبحدم اطلسی سورج کی کرنوں
نے تمہارے خوابگیں چہرے کو
ہلکے سے جگا کے تم سے پوچھا
یا کہا تم سے
ہمیں تم چاہتی ہو ؟
کبھی بارش کے جھونکے نے 
بھگو کے تم کو چُپکے سے 
بھلا یہ کب کہا تم سے 
ہمیں تم اچھی لگتی ہو
ہوا' خُوشبو' کرن 
بارش کی بوندیں
کبھی دن میں 
کبھی شب میں
ہمیں اکثر ہی ملتی ہیں
مگر چُپ چاپ رہتی ہیں
بسس اپنا راگ گاتی ہیں
محبت کی طرح'
گُونگے کا گُڑ ہے جو
نہیں طوفان سے کچھ کم
بہت سرشار کرتا ہے
درون جسم اک ہلچل مچاتا ہے 
دھڑکتا ہے یہ دل بن کے
لہو کی شکل میں یہ 
نوک پا سے سر تلک 
بس موجزن رہتا ہے
مگر یہ کہہ نہیں سکتا
کہ گُڑ میٹھا ہے کتنا۔۔۔۔ ؟
ذائقہ کیا ہے ۔۔۔؟
انور زاہدی

Post a Comment