علی اصغر عباس
خامہ کش کون یہاں وقت کی تختی پر ہے
ہر نوشتہ ہی ابھر آتا ہتھیلی پر ہے
دست کش ہوکے رہا رات سے سورج دن بھر
شام ہوتے ہی شبِ تار کی سولی پر ہے
کون دریوزہ گرِ حسن کا کشکول بھرے
درد نے دل ہے دھرا دستِ سوالی پر ہے
زود رنجی میں چلا آیا ہے بارش لے کر
ایک بادل جو فلک پوش پہاڑی پر ہے
بارِ تبریکِ صبا مشتِ حنا رنگ کھلی
اور اب قوسِ قزح آنکھ کی پتلی پر ہے
ایک نظارہ تہہ آبِ رواں دید طلب
اک پرے باندھے سمندر ،کہ جوانی پر ہے
خود پرستی میں گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا
کوئی اک دیپ بہانے کھڑا ندی پر ہے
کون زنجیرِ جنوں باندھ کے ہے رقص کناں
دشت پورا ہی نظر آتا جو مستی پر ہے
سوزنِ عشق مرے دل میں چبھی ہے اصغر
معرفت اوجِ ثریا کی بلندی پر ہے
علی اصغر عباس

Post a Comment