اعجاز گل
تماشا ایک سا ہر روز کرتے جا رہے ہیں
غبارہ عمر کا سانسوں سے بھرتے جا رہے ہیں
ضروری کام ٹلتا جا رہا ہے آج کل پر
کفِ افسوس مَلتے دن گزرتے جا رہے ہیں
بسائیں گے نگر پانی پہ نو زائیدگاں کل
علاقے خاک کے انساں سے بھرتے جا رہے ہیں
مقدّر ساعتِ نا سعد سے ٹکرا رہا ہے
ستارے اپنے گردش سے بکھرتے جا رہے ہیں
کھڑے ہیں آئینے سے دُور بے نقش و نگاراں
جنہیں حاصل قد و قامت سنورتے جا رہے ہیں
جو چہرے تھے عزیز از جان سب دوری کے باعث
نگاہ و دل کے منظر سے اترتے جا رہے ہیں
میں اونچائی پہ چڑھتا جا رہا ہوں بے خبر سا
کہ زینے واپسی سے اب مکرتے جا رہے ہیں
کئے جاتا ہے سایا روشنی کا بھی ہراساں 
مسافر اپنی آہٹ سے بھی ڈرتے جا رہے ہیں
جو بے اسباب تھے تکتے ہیں مُنہ اک دوسرے کا
جو با اسباب تھے آگے گزرتے جا رہے ہیں

Post a Comment