اوصاف شیخ
کوئی خبر نہیں کچھ دن سے کس جہان میں ہوں
ہوں خاکدان سے باہر کہ خاکدان میں ہوں
کبھی کبھی میں تجھے سوچتا ہوں فرصت میں
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے تیرے دھیان میں ہوں
یہ جھوٹ ہے کہ مجھے اب بھی تیری عادت ہے
یہ سچ نہیں ہے کہ میں اب بھی امتحان میں ہوں
میں جانتا ہوں کہ تو اب بھی مجھ کو سوچتا ہے
میں جانتا ہوں میں اب بھی ترے گمان میں ہوں
وہ تیرے ہجر کے کچھ پہلے دن خدا کی پناہ
یوں مجھ کو لگتا تھا جلتے ہوئے مکان میں ہوں
جہاں تو چاہے چلا دے اب ایسی بات نہیں
نہیں میں تیر نہ تیری کسی کمان میں ہوں
ادا نہ کر سکا اوصاف عمر بھر جس کو
میں ایسا لفظ ہوں اور اپنی ہی زبان میں ہوں

Post a Comment