’’عادی! اٹس اسٹوری ٹائم‘‘ دوسرے کمرے سے میری ساڑھے تین سال کی پوتی کی آواز آئی۔ ہم دوسرے کمرے میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے، تھوڑی دیر پہلے کھانا کھا کر عدیل نے عنایہ کو سونے کے لئے بیڈ روم میں لٹا دیا تھا۔ آج کے اس کمپیوٹر کے دور میں جب کہ بچے نانیوں اور دادیوں کی کہانیوں بھری گود سے نکل چکے ہیں، ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کی نفسیانی تربیت کے لئے ڈاکٹر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ رات کو سونے سے پہلے بچوں کے ساتھ اسٹوری ٹائم سیشن ضرور کیا جائے۔
کہانی ہر دور میں اہم رہی ہے اور بچوں میں کہانیوں کو سمجھنے اور اس سے اثر لینے کی صلاحیت بڑوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ بچوں کے لئے لکھنا اسی لئے سب سے مشکل کام ہے، یہ نانیاں دادیاں بڑی چالاک ہوتی تھیں، کہانی کہانی میں کوئی نا کوئی نصحیت کر جاتی تھیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں ریسرچ نے کہانی کی اہمیت کو دماغی سطح پر اثر پذیری کی بنا پر تسلیم کیا اور نئے ماں باپ کو اسٹوری ٹائم سیشن کرنے کی تجویز پیش کی، کیونکہ یہی وہ عمر ہوتی ہے جب بچے کے لاشعور میں جو چیز راسخ ہوجائے وہ شعوری زندگی میں بھی اسی پر گامزن رہتا ہے۔
ابتداء میں جو منظر میں نے کھینچا ہے وہ امریکہ کی ریاست میری لینڈ میں میرے بیٹے عدیل کے گھر کا ہے، جہاں ڈاکٹر کی ہدایت پر رات سونے سے پہلے میری پوتی اسٹوری ٹائم کی عادی ہوگئی ہے۔ کہانی سنتے سنتے عنایہ نیند کی وادی میں اتر گئی، یقیناََ خواب میں سنی ہوئی کہانی کا تلازمہ خیال ہوا ہوگا۔
بچوں کی تعلیم وتربیت ایک معاشرتی ذمہ داری ہے، ادیب معاشرے کا ایک اہم جزو ہونے کی حیثیت میں اس ذمہ داری میں حصہ دار ہوتے ہیں۔ آج کی زیرِ تبصرہ کتاب ’’مٹی کا قرض‘‘ کے مصنف محمد مزمل صدیقی نے اپنے ذمے اس قرض کو کمال دانشمندی اور فہم و فراست سے ادا کیا ہے۔
مزمل کو کہانی کہنے کا فن قدرت کی ودیعت ہے۔ جس طرح دنیا کے مشہور قلم کاروں نے بچوں کے لئے اچھا ادب تخلیق کیا ہے، جس کا مقصد بچوں کے کردار کی مثبت تعمیر ہے، بالکل اسی طرح مزمل صدیقی نے بچوں کے لئے معیاری ادب تخلیق کیا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ مزمل کی شکل میں بچوں کو ایک اچھا ادیب مل گیا ہے۔
’’مٹی کے قرض‘‘ میں مزمل نے اپنی 16 کہانیوں کا انتخاب کیا ہے۔ جن میں، آؤ دیا جلائیں، دستک، نیکی کی طاقت، سیلاب کی کہانی، کمشنر صاحب، قلفی فروش، مٹی کا قرض، میرے پاپا، معانی، روزے کی خوشبو، عمرو و عیار خطرناک مہم پر، گھر پیارا گھر، وہ وقت، ضمیر کی آواز، یادِ ایام، استاد صاحب شامل ہیں۔
اپنی کہانیوں کے مضبوط بیانیے، واقعات میں ربط اور کرداروں کی تشکیل میں مزمل صدیقی کسی پختہ کار قلمکار سے کسی طور کم نہیں ہے۔ پلاٹ سازی ہو یا کردار سازی مزمل نے اپنی کہانیوں کی بنت میں بڑی محنت سے کام لیا ہے۔
سیلاب کی کہانی، ایک بچے کے جذباتی ردعمل کی بہتریں عکاس ہے۔ کہانی کو حقیقت سے قریب رکھنے میں مزمل نے پاک فوج کے کردار کو پوری طرح نمایاں کیا ہے۔ دستک نامی کہانی میں ماں سے ازلی محبت پوری طرح جلوہ گر نظر آتی ہے، اس کہانی کا اختتام انتہائی غیر متوقع نظر آیا جو اس کہانی کے تاثر کو بہت متاثر کن بناتا ہے۔
مٹی کا قرض کی کہانیاں مزمل صدیقی نے روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے بڑے مسائل کو فکری اور جمالیانی وسعت دیتے ہوئے سبق آمیز انداز میں بڑی آسانی سے پیش کیا ہے، کہانیوں کے عنوانات بھی کہانیوں کی زبان و بیان کی طرح سادگی لئے ہوئے ہیں۔ سبق آموز نتائج کے حامل موضوعات جس جذباتی انداز میں لکھے گئے ہیں، وہ قابل ستائش ہیں۔
کتاب کا عنوان کتاب میں موجود کہانی مٹی کا قرض سے اخذ کیا گیا ہے جو اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ مزمل مٹی کی محبت اور وطن کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہے۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں، کہ واجب بھی نہیں تھے
مزمل کی کہانیاں اللہ تعالیٰ، والدین، وطن اور اپنے آپ سے محبت کا درس دیتی محسوس ہوتی ہیں، وہیں ضمیر کی خلش، محنت میں عظمت، اساتذہ کا ادب، وقت کی قدر، نیکی کا صلہ کی اہمیت کو اجاگر کرتی نظر آتی ہیں۔
کمپیوٹر کی دنیا میں کھونے کے باوجود انسان کے ذہن میں موجود تجسس کا مادہ ختم ہونے کی بجائے اور بڑھ گیا ہے۔ صدیوں پرانی الف لیلیٰ کی کہانیاں ہوں یا نانیوں، دادیوں کی سنائی ہوئی شاہ جنات اور پریوں کی کہانیاں اور پھر ہر رات ابھرنے والا سوال کہ آگے کیا ہوا، یہ سوال کمپیوٹر کی دنیا میں کھونے کے باوجود بچوں کے علاوہ ہم بوڑھے بچوں میں بھی زندگی بھر ابھرتا رہے گا اور جب جب یہ سوال ابھرے گا تب تب مزمل صدیقی جیسے افراد مٹی کا اور ادب کا قرض اتارتے رہیں گے۔
مٹی کے قرض میں شامل مزمل صدیقی کی کہانیاں بچوں کے ساتھ ساتھ بڑے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ 

2 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں